یہ خبر انتہائی تشویشناک ہے کہ چترال اپر اور لوئر کے مختلف علاقوں میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران لگ بھگ 100 کے قریب ان پلوں کو دریا برد ہونے اور نقصان سے دوچار ہونے کی وجہ سے محولہ علاقوں کے عوام کا رابطہ ملک کے دیگر علاقوں سے کٹ گیا ہے ،یہ صورتحال علاقے میں موسلادھار بارشوں اور گلیشیئرز کے پھٹ جانے کی وجہ سے پیش آئی ہے، کئی دیہات کا رابطہ ایک دوسرے سے بھی کٹ چکا ہے، یہاں تک کہ طلباء و طالبات کو حصول تعلیم میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور انہیں تعلیمی اداروں تک پہنچنے کیلئے دیگر علاقوں تک کا سفر کر کے چند ایسے مقامات تک آنا پڑتا ہے جہاں پل قابل استعمال ہیں، یاد رہے کہ دریائے چترال کے دونوں جانب کے دیہات کو ایک دوسرے سے ملانے کیلئے چترال اپر اور لوئر میں لا تعداد چھوٹے بڑے لکڑی کے پل بنائے گئے ہیں ،جن میں سے چند ایک پر چھوٹی گاڑیاں اور جیپیں بھی رواں دواں رہتی ہیں،تاہم حالیہ موسلادھار بارشوں اور گلیشیئرز کے پھٹنے کے باعث لا تعداد پل سیلاب کی نظر ہونے کی وجہ سے دریائے چترال کے دونوں سمت دیہات کے رابطے منقطع ہو چکے ہیں، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر چیف سیکرٹری نے حالیہ دنوں میں علاقے کا دورہ کر کے صورتحال کا جائزہ بھی لیا ہے، اس لئے اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی حکومت اس ہنگامی صورتحال سے نمٹنے اور عوام کو اس مشکل سے باہر نکالنے کیلئے کیا اقدام کرتی ہے؟ِ صوبے میں سرگرم وہ ادارے جو ان حالات میں ہمیشہ عوام کی مدد کیلئے آگے آ کر متاثرین کو فوری امداد پہنچاتے ہیں، ان کی سرگرمیاں بھی سامنے نہیں آرہی ہیں، امید ہے یہ ادارے بھی جلد از جلد اپنی فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرگرم ہو جائیں گے، تاہم اصل ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے کہ وہ ان رابطہ پلوں کو بحال کرنے میں کوئی تاخیر نہ کرے تاکہ حالات معمول پر آ سکیں۔