پاکستانی گھٹن زدہ ماحول میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے

پاکستان میں لوگوں کی طرز زندگی اور دنیا کے دیگر ممالک میں لوگوں کی طرز زندگی میں فرق مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے، اس کی ہزار وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ پاکستان میں پچانوے فیصد لوگوں کی مالی مشکلات اور آمدن و خرچ میں مسلسل بڑھنے والا فرق ہے، جس کی وجہ سے عام شہری مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار رہتا ہے، پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے جس کی وجہ پاکستان میں اشرافیہ کے شاہانہ خرچے اور کرپشن ہے، جبکہ یہی اشرافیہ مختلف طریقوں سے جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں ان کو کنٹرول کرتی ہیں، ان کی وجہ سے غریب کی زندگی مسلسل دباؤ کا شکار ہے اور اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔پاکستان کے بیشتر علاقوں میں خاندانی نظام موجود ہے اور لوگ ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں مالی مشکلات کم کرنے میں مدد ملتی ہے، لیکن اس معاشرے میں آپ توازن بگڑ رہا ہے جس کا براہ راست اثر شادی شدہ جوڑوں پر پڑ رہا ہے،مالی و معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اب پاکستان میں طلاق اور خلع لینے کی رفتا ر ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور اس میں تیزی کے ساتھ مزید اضافہ ہورہا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ترقی یافتہ اور خوشحال دنیا میں طلاق اور خلع کے واقعات نہیں ہوتے،بلکہ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے مگر اس کا موازنہ پاکستان سے نہیں کیا جاسکتا ،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں عورت اور مرد دونوں کماتے ہیں اور کلی طور پر خود مختار ہیں، وہاں کا خاندانی نظام طلاق یا خلع کی بنیاد پر رشتے ختم کرنے سے مشکلات اور مسائل کا شکار نہیں ہوتا اور وہاں طلاق کے بعد دونوں فریقوں کی جائیداد اور دولت آدھی آدھی بانٹ دی جاتی ہے جس میں عورت کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے اور مستقبل میں مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جبکہ پاکستان میں عورت کو جب طلاق ہوتی ہے تو وہ والدین پر بوجھ بن جاتی ہے جس سے اس خاندان کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
طلاق کو ہمارے معاشرے میں ایک بْرا فعل سمجھا جاتا ہے، طلاق یافتہ خواتین کو پھر ساری زندگی اس بوجھ کو سہنا پڑتا ہے،پاکستان میں طلا ق کی بڑھتی شرح کی وجوہات میںایک بڑی وجہ موبائل فون کا بے محابہ استعمال بھی ہے، یہاں ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل فون آگیا ہے جس کی وجہ سے مردو خواتین اپنا زیادہ تر وقت موبائل کے ذریعہ سوشل میڈیا کو دے رہے ہیں، اس گھٹن زدہ معاشرے میں انسان کا پہلے عمل شک کا ہوتا ہے اس لئے کہ اس معاشرے میں لوگ حقیقی طور پر مصروف نہیں ہوتے، خواتین زیادہ تر وقت ٹی وی ڈرامے اور سوشل میڈیا پر مصروف رہتی ہیں جہاں ایک تخیلاتی دنیا ان کو دکھائی جاتی ہے، یوں مسلسل ان ڈراموں کو دیک دیکھ کر اب ہمارے معاشرے کی خواتین بھی ان جیسے کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتیں، جس کا نتیجہ گھر میں ناچاقی کی صورت میں نکلتا ہے اور انجام خلع یا طلاق پر منتج ہوتا ہے۔ خلع لینے والی خواتین اور طلاق یافتہ خواتین کی زندگی معاشرے میں بہت مشکل سے گزرتی ہے اس لئے کہ ہمارے معاشرے میں ان بچیوں کو پھر ہر طرف سے طعنے ملتے ہیں، طلاقوں کی ایک بڑی وجہ ماں باپ بھی ہیں جو اپنی بیٹیوں کی تربیت کرنے کی جگہ ان کو اس عمل پر اکساتے ہیں، آپ کسی دن اپنے پس پڑوس کی عدالتوں کا چکر لگائیں وہاں ہر دوسرا کیس طلاق یا خلع کا ہوتا ہے، یہ رجحان جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اس سے ہمارا معاشرتی نظام متاثر ہورہا ہے اور والدین کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے، محبت کی شادی کرنے والے جوڑے اس عمل میں زیادہ پیش پیش ہیں اس لئے کہ وہ شادی سے پہلے ایک دوسرے سے بہت امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں اور پھر جب عملی زندگی میں یہ توقعات پوری نہیں ہوپاتیں تو نوبت طلاق تک آجاتی ہے۔
ہمارے ایک دوست وکیل ہیں جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ طلاق کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے تو ان کا جواب بہت چونکا دینے والاتھا کہ عدالتوں میں زیادہ ترکیس ان خواتین کے آتے ہیں جو ملازمت پیشہ ہیں، اور تعلیم یافتہ ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر جن کو ماضی میں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی اب ان پر جوڑے لڑ پڑتے ہیں اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے، اس سب کی وجہ معاشرے میں پایا جانا والا عدم برداشت ہے جس کی وجوہات ، سماجی ، معاشی ، نفسیاتی اور کسی حدتک خودساختہ بھی ہیں، یہ معاشرہ اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کا پہلا حدف میاں بیوی کا رشتہ ہے، لیکن معاشرے میں اس حوالے سے کوئی بھی ادارہ چاہے وہ سرکاری سطح پر ہو، مقامی سطح پر یا مذہبی سطح پر کام نہیں کررہا۔ ہماری یونیورسٹیوں میں سماجیات اور نفسیات کے شعبہ جات موجود ہیں لیکن ان کے اساتذہ اس سلسلے میں نہ تو تحقیق کرتے ہیں اور نہ ان کے پاس اس سلسلے میں کوئی تجاویز ہیں جبکہ ترقی یافتہ دنیا میں سماجیات اور نفسیات کے شعبے اس میں تحقیق کرکے اس کو روکنے یا اس کی شدت کو کم کرنے کیلئے لائحہ عمل پیش کرتے ہیں۔ طلاق اور خلع میں سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے،اس لئے کہ ماں کی موجودگی بچوں کیلئے بہت ضروری ہوتی ہے، ہمارے ملک میں بچے شوہر کے حوالے کئے جاتے ہیں اور شوہر کے گھر میں ان بچوں کو ماں کی توجہ حاصل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے یہ بچے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ اس ملک میں پیمرا نام کا ایک ادارہ ہے جس کا یہ کام ہے کہ وہ ٹی وی پر چلنے والے ان سینکڑوں ڈراموں کی خبر لے جن میں طلاق اور خلع لینے کی مسلسل ترغیب دی جارہی ہے، پیمرا اس کو ختم کرا سکتی ہے اور خاندانی نظام کو تباہی کی طرف لے جانیوالے مواد سے پر پابندی لگا سکتی ہے لیکن اس کو سیاست سے فرصت نہیں ہے۔ اس لئے کہ گزشتہ چند برسوں سے ٹی وی ڈراموں میں یہی خرافات دیکھائی جارہی ہیں جن کا اثر اب ہونے لگا ہے اور خاندانی نظام تباہ ہو رہا ہے، ہمارے تعلیمی اداروں کا بھی معاشرے کے بنانے اور اس کو سہولت سے چلانے میں ایک کردار ہونا چاہئیے مگر تعلیمی اداروں نے خود کو اس سے بری الذمہ سمجھ لیا ہے اور طلبہ کو صرف رٹے پر لگا کر اس کا بیڑا غرق کردیا ہے، حکومت کا کام ہے کہ وہ اس سلسلے میں سنجیدہ نوعیت کی پالیسی سازی کرے اور اس میں تعلیمی ، سماجی اور مذہبی اداروں کو بیٹھا کر اس مسئلہ کا حل تلاش کرے،عدالتوں کو اس سلسلے میں کوئی ضابطہ اخلاق بنانا چاہئیے کہ والدین اور معاشرے کے دیگر لوگوں کو ان جوڑوں میں صلح صفائی کرنے کا موقع فراہم کرے، اگر حکومت اس سلسلے میں آگاہی مہم چلائے اور میڈیا کو کنٹرول کرے تو یہ شرح پھر سے قابو میں آسکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی