حقیقی احتساب کی ضرورت

پاکستان تحریک انصاف جس نعرے پرعوام بالخصوص نوجوانوں میں مقبول جماعت بنی اس کے بانی کی شخصیت کے ساتھ ساتھ اس کے وہ نعرے اور وعدے بھی تھے جس میں شفافیت ، معیار ، میرٹ اور احتساب کے وہ وعدے اور دعوے تھے جن کو سن کر خواب لگتا تھا کہ ہمارے ملک میں ایسا بھی ممکن ہوسکے گا بعد کی دوحکومتوں میں نہ صرف یہ خواب بغیر تعبیر کے رہ گئے بلکہ بدقسمتی سے بدعنوانی ، ناانصافی اور خلاف میرٹ بھرتیوں سمیت اختیارات کے ناجائز استعمال میں بھی اضافہ ہوابی آر ٹی سکینڈل بطور خاص قابل ذکر ہے اس کے ساتھ ساتھ محکمہ صحت و تعلیم او رمواصلات و تعمیرات خوراک ، کھیل و ثقافت جیسے محکموں میں ریکارڈ بدعنوانیاں ہوئیںخود وزراء کی تبدیلیاں کرکے اس کا ایک طرح سے اعتراف بھی کیا گیا مگر جہاں معاملات صرف بدعنوانی کے تھے وہاں احتساب کا کوئی عمل نظر نہ آیا جہاں سیاسی چیلنج کی آمیزش تھی وہاں بھی بدعنوانی پر کارروائی کی بجائے سیاسی چپقلش کا حساب برابر کرنے کو ترجیح دی گئی صوبے میں محمود خان کی حکومت تو ناقص کارکردگی اور بدعنوانی کا استعارہ سمجھی گئی جبکہ پرویز خٹک کی حکومت کا سب سے بڑا سکینڈل بی آر ٹی میں بوریاں بھر بھر کے کرپشن کی تحقیقات اور احتساب کا ہنوز انتظار ہے اب جبکہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت میں محولہ غلطیوں کے اعادے کی روک تھام کے لئے ایک موزوں قدم اٹھایا گیا ہے تو بہتر ہو گا کہ ماضی کی غلطیوں اور ناکامیوں کا اگر احتساب ممکن نہیں تو اس کا اگر عوامی اعتراف ہی کیا جائے تو کم از کم اس سے یہ امید پیدا ہو گی کہ اس مرتبہ جو طریقہ کار اختیار کیاگیا ہے یہ دکھاوا ، نمائشی اور بے اختیار نہیں بلکہ سنجیدگی کے ساتھ سوچ سمجھ کر اٹھایا گیا قدم ہے جس سے توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں موجودہ حکومت کو بدعنوانی اور دیگر قبائح سے پاک قرار دینا خلاف حقیقت بات ہو گی سی اینڈ ڈبلیو ، محکمہ خوراک اور محکمہ صحت سمیت دیگر محکموں میں صورتحال پہلے جیسی ہی بتائی جاتی ہے جس کا صرف نوٹس لینا کافی نہ ہو گا بلکہ کمیٹی کو ہر طرح سے حصول معلومات کی سعی کرنی ہو گی جس کا اسے اختیار ہے اس ضمن میں اس امر کوسنجیدہ کوشش قرار دیا جا سکتا ہے کہ صوبے میں بدعنوانیوں کی شکایات پر بننے والی کمیٹی نے وزراء کے بعد مختلف محکموں کے سربراہان وغیرہ کو بھی طلب کرنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے، اس سلسلے میں ایک اعلیٰ ذرائع کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ وزیروں اور مشیروں سے بیانات لینے کے بعد مختلف محکموں کے سابق اور موجودہ سربراہان سے بھی معلومات لی جائیں گی۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے صوبے میں بدعنوانی کی مبینہ شکایات کی جانچ پڑتال کیلئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے اس کمیٹی کی جانب سے شکایات پر کارروائی شروع کردی گئی ہے ،پہلے مرحلے میں کمیٹی کی جانب سے چند وزراء کو طلب کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے اور تحریری بیانات لئے جا رہے ہیں۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اس حوالے سے جاری جانچ پڑتال کے دوسرے مرحلے میں متعلقہ محکموں کے افسروں سے بھی معلومات لی جائیں گی اور ممکنہ طور پر ان کے بیانات قلم بند کئے جائیں گے۔ ادھر خیبرپختونخوا میں بدعنوانی کی روک تھام کے لیے قائم گڈ گورننس کمیٹی کے رکن قاضی انور ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ شکایت ملنے پر کمیٹی وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور کو بھی طلب کر سکتی ہے۔ قاضی انور ایڈوکیٹ کا کہنا تھا جس محکمے سے متعلق شکایات زیادہ ہیں پہلے اس کے وزیر کو بلا رہے ہیں، ہمارے پاس مختلف محکموں کے خلاف بہت ساری شکایات آئی ہیں، محکمہ صحت اور محکمہ خوراک کے وزراء کو بھی بلایا جائے گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ صوبے میں بدعنوانی کی روک تھام کے لئے اس طرح کی سعی کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے تا وقت یہ کہ کمیٹی بے بس اور ڈنگ ٹپائو کی حامل ثابت نہ ہو کمیٹی کے جس رکن کا بیان آیا ہے سوایء ان کی پیرانہ سالی کے اور ان کے حوالے سے کسی اعتراض کی گنجائش نہیں ان کا تجربہ مہارت قانون کی پاسداری سبھی مسلمہ ہیں جن کی روشنی میں بجا طور پر توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے ضعف کے باوجود صوبے کے عوام کے لئے مثال قائم کرنے کی پوری سعی ضرور کریں گے اور اس میں ان کو کامیابی بھی ہوگی صوبے میں تحریک انصاف کی یہ تیسری حکومت ہے دو حکومتوں پر روایتی حکومتوں اور اس سے جڑی بدعنوانیوں کی روک تھام میں ناکامی اور عوام کے مسائل کے حل میں ناکامی اور توقعات پر پوری نہ اترنے کا الزام لگایا جا سکتا ہے مگر اس مرتبہ صوبے میں جن حالات میں تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے اگر یہ دور حکومت بھی ماضی سے مختلف نہ ہو گئی توپھر صوبے کے عوام شاید چوتھی مرتبہ اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوں اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ تحریک انصاف سے جڑے لوگ شفافیت اور میرٹ کی بالادستی کے داعی اور خواہاں ہیں اور وہ صوبے میں ایسی حکومتی کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں کہ وسائل کی کمی اور مشکلات کے باعث صوبائی حکومت کو اگر عوامی مسائل کے حل میں کامیابی نہیں بھی ہوئی تو کم از کم بدعنوانی کا داع دامن پر نہ لگے یہ کم سے کم اور حقیقت پسندانہ توقع ہے جس پر پورا اترنے کی حکومت کو پوری کوشش کرنی چاہئے اور کمیٹی بھر پور طریقے سے اس امر کا اہتمام کرے کہ صوبے میں بدعنوانی کی گنجائش باقی نہ رہے ۔

مزید پڑھیں:  قومی ترانے کی بے حرمتی