اگرتلہ سے شروع ہونے والی گیم کے نصف صدی سے بھی زیادہ مدت کے بعد اگرتلہ ہی میں اختتام کے حوالے سے ہم نے گزشتہ کالم میں گزارش کی تھی کہ ” گیم تو ابھی شروع ہوئی ہے” یعنی بظاہر توشیخ مجیب الرحمن کی بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے پاکستان کو دولخت کرنے کی جو کہانی آغاز ہوئی تھی ، اس کا بظاہراختتام تو شیخ صاحب کی پتری شیخ حسینہ واجد کا ملک سے فرار کے بعد پہلے پڑائو کے طور پر اگرتلہ ہی میں جا کر دم لینے سے تو یہ کہانی اصولی طور پر اختتام پذیر ہو جانی چاہئے تھی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ تاہم اس سے پہلے کہ آگے بڑھا جائے ، ایک معذرت کرنی ہے اور وہ یہ کہ گزشتہ کالم میں ہم نے اس دور کے سیاسی قائدین کی گول میز کانفرنس اور اس میں سیاسی قائدین کے دبائو کے تحت شیخ مجیب کو اگرتلہ سازش کیس سے رہائی دلوانے کے واقعات کو جزل یحییٰ خان دور حکومت سے جوڑ دیا تھا ، مگر بعد میں یاد آیا کے ایسا جنرل یحییٰ خان کے دور میں نہیں ہوا تھا بلکہ یہ واقعہ فیلڈ مارشل(خود ساختہ)ایوب خان کے اقتدار کے آخری دنوں کا تھا اور ابواب خان نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے حوالے سے گفت و شنید کے لئے تمام سیاسی قائدین کی گول میز کانفرنس بلوائی تھی، جبکہ سیاسی قائدین سے پر زور اصرار پر شیخ مجیب کو تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے انہیں بھی کا نفرنس میں شرکت کے لئے بلوایا تھا گزشتہ کالم تحریر کرتے ہوئے چونکہ ہمارے حافظے نے ہمارا ساتھ نہیں دیا تھا اس لئے ہم نے گول میز کانفرنس کے انعقاد اور شیخ مجیب کی رہائی کو یحییٰ خان کے دور سے جوڑ دیا تھا جس کے لئے ہم معذرت خواہ ہیں۔کہ بقول مشفق خواجہ
اپنی یادوں کو سمیٹیں گے بچھڑنے والے
کسے معلوم ہے پھر کون کدھر جائے گا ؟
شیخ حسینہ واجد کا جو حشر اپنے ہی ہموطن طالب علموں کے ہاتھ سے ہوا اور بھارت میں پناہ لینے کے بعد اس کو کسی بھی ملک میں پناہ لینے میں جس طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس پر شہنشاہ ایران مہر رضا شاہ پہلوی کا انجام آنکھوں کے سامنے پھر گیا ہے جب امام خمینی کی سات سالہ جدوجہد کے نتیجے میں ایران میں انقلاب برپا ہوا ، اور انہوں نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو رضا شاہ اور ان کے اہل خاندان پر ایران کی زمین تنگ ہو گئی تھی ، ادھر وہ طیارے میں مقدور بھر دولت ، جواہرات ، سونا وغیرہ لے کر فرار ہوئے ادھر امام خمینی کا طیارہ فرانس سے اڑ کرتہران کے فضائی اڈے پر اترا جہاں لاکھوں افراد امام خمینی کے والہانہ استقبال کے لئے موجود تھے جبکہ تہران کی سڑکوں پر بھی انقلاب کو خوش آمدیدکہنے نکل آئے تھے ، شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کا طیارہ ملک کی سرحدات چھوڑ کر نامعلوم منزل کی سمت رواں دواں تھا ، آزمائش کی اس گھڑی میںجس طرح امریکی حکومت نے توتے کی طرح آنکھیں پھیرتے ہوئے اپنے اس دیرینہ مربی کو امریکہ آنے سے منع کیا ، اس کے تتبع میں دیگر کئی ملکوں نے بھی اسے پناہ دینے سے صاف انکار کردیا اور صرف ایک روز پہلے تک اس کے لئے دیدہ دل فرش راہ کرنے والے ممالک نے اچانک جسطرح اس سے منہ موڑ لیا تھا یہ تاریخ انسانی کا ایک عبرت ناک واقعہ تھا ، وہ مختلف ممالک میں مختصر وقت کے لئے پناہ ڈھونڈے ہوئے بالآخر مصر کی حکومت کی جانب سے مستقل سیاسی پناہ دینے پرآمادگی کے بعد کئی ملکوں میں عارضی قیام کے بعد قاہرہ جا کر قدرے اطمینان کی سانس لینے پر مجبور ہوا ، اور بالآخر وہیں کینسر جیسے موذی مرض سے لڑتے ہوئے اپنے خالق حقیقی کے دربار میں حاضر ہوا ، اب کے کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا شیخ حسینہ واجد کو بھی کرنا پڑ رہا ہے ، بھارت میں (تادم تحریر عارضی قیام) کے نتیجے میں بادل ناخواستہ قیام کی اجازت تو ضرور دی گئی ہے جبکہ بھارت نے انہیں جلد از جلد بھارت سے نکل جانے کو بھی کہہ دیا ہے حالانکہ شیخ مجیب سے لے کر شیخ حسینہ واجد تک بنگلہ دیش کے ساتھ سب سے زیادہ قربت کی دعویداری بھارتی رہنمائوں کو رہی ہے اور بنگلہ دیش کے قیام میں عملی تعاون کرتے ہوے اس دور کی بھارتی پردھان منتری شریمتی اندرا گاندھی نے تو فخریہ طور پر یہاں تک کہا تھا کہ بھارتی حکومت نے (بنگلہ دیش کے قیام کے ساتھ ہی ) دو قومی نظریئے کو خلیج بنگال میں غرق کرتے ہوئے مسلمانوں سے ایک ہزار سالہ غلامی کا بدلہ چکا دیا ہے ، مستزاد یہ کہ نریندر مودی نے ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے بنگلہ دیش کے دورے میں اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ بھارت نے بنگلہ دیش کے قیام میں عملی مدد کرکے پاکستان کو دولخت کیا ، اگرچہ پاکستان کو دو لخت کرنے کے حوالے سے الزام صرف شیخ مجیب اور اندرا گاندھی پر ہی نہیں لگایا جاتا بلکہ اس حوالے سے بھٹو مرحوم کو بھی مطعون کیا جاتا ہے اور جو لوگ اس ”نظریئے” کے حامی ہیں وہ تینوں کے انجام کو سامنے لا کر بطور ثبوت پیش کرتے ہیں ، تاہم ابھی حال ہی میں خود سپریم کورٹ نے اپنے سابقہ فیصلے سے رجوع کرتے ہوئے بھٹو کے خلاف دیئے گئے حکم کو ”جوڈیشل مرڈر” یعنی عدالتی قتل سے یہ کہہ کر تشبیہ دی کہ انہیں انصاف فرہم نہیں کیا گیا اور اس کے بعد پاکستان کو دو لخت کرنے کا الزام بھٹو پر لگانے والوں کو بھی اپنے نظریات سے رجوع کرنا لازمی ہو جاتا ہے داغ دہلوی نے کیا خوب کہا ہے کہ
وہ قتل کرکے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا تھا ، یہ کام کس کا تھا؟
حیرت ویسے اس بات پر ہے کہ اپنے ایک تازہ بیان میں شیخ حسینہ واجد نے بھی کہہ دیا ہے کہ ان کی حکومت امریکہ نے ختم کرائی ہے اور اس حوالے سے انہوں نے بھی ”اڈے” نہ دینے کا بہانہ تراشا ہے ممکن ہے ایسا ہوا بھی ہوکیونکہ دنیابھر میں جہاں جہاں بھی حالات سنگین ہو جاتے ہیں اور حکومتوں کے تختے الٹائے جانے کی وارداتیں ہوتی ہیں تو ان میں امریکی ہاتھ کو تلاش کرنا اتنا مشکل بھی نہیں ہوتا ، دوسری جانب شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی والدہ شیخ حسینہ واجد آئندہ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ملک واپس لوٹ جائیں گی ، یہ بیان ایک ایسے شخص نے دیا ہے جو عرصہ ہوئے اپنے وطن بنگلہ دیش کی شہریت ترک کرکے (امریکی پاسپورٹ حاصل کر چکا ہے ، اس بیان کے بعد ایک تو سجیب واجد سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ”تجھ کو پرائی کیا پڑی ، اپنی نبیڑتو” یعنی تیر اب بنگلہ دیش سے کیا لینا دینا؟ مگر اس قسم کے بیانات داغنے سے ان کا ایک اور مقصد بھی ہوسکتا ہے اور وہ یہ چونکہ دنیا بھر میں امریکہ ، برطانیہ سمیت کئی ممالک بشمول اسلامی ممالک نے بھی شیخ حسینہ کو پناہ دینے سے انکار کرتے ہوئے ان سے آنکھیں پھیرلی ہیں ، اس لئے سجیب واجد بھارتی حکومت کو آمادہ کرنا چاہتے ہوں کہ شیخ حسینہ کو بھارت چھوڑنے کا نہ کہا جائے وہ جلد ہی اپنے وطن لوٹ جائیں گی یہ الگ بات ہے کہ موصوفہ نے اگروطن واپس جانے کا فیصلہ کیا تو وہاں پہنچتے ہی ان کے ساتھ جوسلوک متوقع ہوسکتا ہے اس بارے میں کچھ کہنا ”عبرت” کے زمرے میں آسکتا ہے ۔ شیخ حسینہ نے نفرتوں کے جو بیج بوئے اس پر عبد القادر برڑو نے کیا خوب کہا ہے کہ
پچھتائیں گے اک روز کڑی دھوپ پڑی تو
جولوگ محبت کے شجر کاٹ رہے ہیں
Load/Hide Comments