پانچ سو ارب کی”چوری”؟

قومی خزانے کو لوٹنے کے حوالے سے اگر ایسی بات کوئی اور شخص کرتا ، سوشل میڈیا پر اس قسم کے الزامات سامنے آتے تو شاید کوئی بھی یقین نہ کرتا ، ویسے بھی ہمارے ہاں ایسے الزامات جب سوشل میڈیا پر سامنے آتے ہیں تو عوام ان سے ”لطف اندوز” ہونے سے دریغ نہیں کرتی جبکہ ایسی باتیں وقتی طور پر پیالی میں طوفان اٹھنے کا باعث بن کر بعد میں ان کی جھاگ بیٹھ جاتی ہے ، مگر جب انگریزی محاورے کے مطابق صورتحال”فرام دی ہارسز مائوتھ” والی بن جائے تو اس پر اظہار تشویش کرنے کے سوا چارہ ہی نہیں رہتا ، اس لئے یہ جو کسی اور نے نہیں ، پاکستان کی معتبر ترین اشخاص میں سے ایک یعنی وزیر اعظم شہباز شریف نے کہہ دیا ہے کہ ہر سال ملی بھگت سے پانچ سو ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے تو اس پر یقین نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سربراہوں اور بورڈ ممبران سے اسلام آباد میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے بجلی کے نظام کو سخت چیلنج کا سامنا ہے بدقسمتی سے ڈسکوز کی کارکردگی قابل تعریف نہیں ہے ، وزیر اعظم نے کہا کہ ایسے افسر بھی ہیں جنہوں نے ڈسکوز کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، ہمیں اس نظام کو تبدیل کرنا چاہئے جس نے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے ، انہوں نے کہا کہ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2300 ارب روپے ہے جو کل بجٹ کا ایک تہائی ہے ایسے بجلی گھروں کے ملازمین کی تنخواہیں جاری ہیں جو بند ہو چکے ہیں ، وزیر اعظم نے کہا کہ اگر لوٹ مار ہی کرنی ہے تو تباہی ہمارا مقدر ہوگا بجلی نظام ٹھیک کرکے ہی معیشت دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے ۔ جہاں تک وزیر اعظم شہباز شریف کے دعوئوں کا تعلق ہے ان میں چھپے حقائق کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، اور دیکھا جائے تو نجی پاور کمپنیوں نے جو ات مچائی ہوئی ہے اس نے ملک میں بجلی کی قیمتوں کو اس سطح پر پہنچا دیا ہے جہاں آئے روز زیادہ بلوں کی ادائیگی میں ناکامی کی وجہ سے غریب لوگوں کی خود کشیوں کی خبریں بھی سامنے آجاتی ہیں ، جبکہ جن شرمناک شرائط پر نجی پاور کمپیوں کے ساتھ معاہدے کئے گئے ہیں اور بعض کی مدت ختم ہونے کے باوجود ان بااثر افراد کے ساتھ ان ظالمانہ معاہدوں میں توسیع کرکے انہیں ملک کے غریب عوام پر مسلط کیا گیا، اب تک تو صرف خبریں تھیں مگر اب خود وزیر اعظم نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ بعض بجلی گھر بند ہونے کے باوجود ان کے ملازمین کی تنخواہیں جاری ہیںجس کا با الفاظ دیگر یہ مطلب ہے کہ بند ہوئے بجلی گھروں کو اسی طرح ایک یونٹ بجلی بنائے بغیر معاہدے کے مطابق اربوں روپے کی ادائیگی جارہی ہے جو یقینا قومی خزانے کو لوٹنے کے مترادف ہے ، یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے بھی دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اگر لوٹ مار ہی کرنی ہے تو تباہی ہمارا مقدر ہے ، اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب پاور سیکٹرکا گردشی قرضہ ملک کے کل بجٹ کے ایک تہائی کے برابر آگیا ہے جس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ ملک کا نظام کیسے چل سکے گا ، تو حکومت ان معاہدوں پر نظر ثانی کرنے اور ان سے عوام کی جان چھڑانے میں لیت و لعل سے کام کیوں لے رہی ہے ، ان کمپنیوں کے مالکان خود بھی اس صورتحال میں ملک و قوم پر رحم کھاتے ہوئے مزید قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ سے ہاتھ کیوں نہیں کھینچتے اگر خدانخواستہ ملکی معیشت بیٹھ گئی تو یہ لوگ کہاں سے مزید کمائیں گے ؟ اور دیکھا جائے تو ملکی معیشت کی نیا ڈوبنے کی ذمہ داری بھی انہی سرمایہ کاروں کے سر ہو گی ، جن میں ایسے بھی موجود ہیں جن کی کمپنیاںایک یونٹ بجلی بھی قومی گرڈ کو دیئے بغیر ہر سال اربوں روپے (ڈالروں کی صورت میں) سمیٹ لیتے ہیں ، اس حوالے سے وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ ڈسکوز میں سیاسی بھرتیاں کی گئیں جن سے صورتحال ایک اور طرح سے تشویشناک ہوچکی ہے اگرچہ وزیر اعظم نے ان سیاسی بھرتیوں کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا ہے جو اپنی جگہ خوش آئند ہے مگر کیا صرف اس ایک اقدام سے ڈسکوز کے ہاتھوں تباہی سے دو چار ملکی معیشت کو سہارا دینے میں کامیابی مل سکے گی؟حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان جونکوں کی طرح ملکی معیشت سے خون چوسنے والی”پاور جونکوں” سے جان چھڑانے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں ، جن کی وجہ سے ہر ماہ بجلی بلوں میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ، اوپر سے مختلف قسم کے ٹیکسوں کے نفاذ اور خاص طور پر سلیب سسٹم کی وجہ سے عوام کو جو عذاب سہنا پڑ رہا ہے ان سے چھٹکارا پائے بغیر اس سے نجات ممک نہیں ہے اس لئے حکومت عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لئے ضروری اقدام اٹھائے ، جس کے بغیر نہ عوام کوریلیف مل سکتا ہے نہ ملکی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  اپنے بچوں کو فعال شہری بنائیں