خیبر پختونخوا کے محکمہ خوراک میں امپورٹڈ گندم خراب ہونے کا سکینڈل سامنے آیا ہے جس میں 18ارب روپے سے زائد گندم گوداموں میں پڑے پڑے خراب ہونے کا انکشاف ہوا ہے خبر کے مطابق کوہاٹ روڈ کے ایک گودام میں 80 ہزار سے زائد بوریاں خراب پڑی ہوئی ہیں اور باہر ممالک سے درآمد شدہ یہ گندم اب استعمال کے قابل ہی نہیں ہے جبکہ محکمہ خوراک کے ذمہ دار ذرائع نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ 76 ہزار میٹرک ٹن درآمد شدہ گندم بالکل ٹھیک ہے مگر ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ نہ صرف پشاور بلکہ دیگر اضلاع ملاکنڈ ، کوہاٹ ، ہنگو سمیت اور بھی جگہوں پر غلہ گوداموں میں پڑی 11 لاکھ بوریوں سے زائد گندم خراب ہوچکی ہے اس حوالے سے ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر نے ڈائریکٹر فوڈ کو لکھے گئے خط میں انکشاف کیا تھا کہ امپورٹڈ گندم سٹوریج کے قابل ہی نہیں ہے جبکہ ڈائریکٹر فوڈ نے مبینہ طور یر سکینڈل چھپانے کے لئے ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز کے تبادلے شروع کر دیئے تھے جبکہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایک پروپیگنڈہ ہے اور گوداموں میں 78 ہزار میٹرک گندم بالکل ٹھیک ہے ، ان متضاد دعوئوں کے حوالے سے اس مسئلے کی غیر جانبدارانہ انکوائری کا سوال تویقینا بنتا ہے کیونکہ ایک تو یہ کہ جب یہ گندم درآمد کی جارہی تھی تو اس وقت بھی اس کے ناقص ہونے پر سوال اٹھائے گئے تھے دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم ایک جانب تو پنجاب حکومت پر الزامات لگاتے نہیں تھکتے کہ وہ ہمیں گندم کی فراہمی میں روڑے اٹکا رہی ہے مگر دوسری جانب خود اپنے ہی محکمہ خوراک کے گوداموں میں پڑی امپورٹڈگندم فلور ملوں کو سپلائی کرنے میں کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور صوبے میں آٹے کا بحران پیدا کرکے عام عوام کو نانبائیوں کے ہاتھ کھلونا بنا کر روٹی کی قیمت بڑھانے یا پھر وزن کم کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں اب متعلقہ حکام اس ”ناقص” گندم کا معمہ حل کرنے پر توجہ دے کر عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرے۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments