یہ ممکن ہو سکا تو بہت اچھا ہوگا

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بجلی کے بلوں میں کمی کے بغیر پاکستان کی صنعت، زراعت، برآمدات نہیں بڑھ سکتی ہیں، نہ گھریلو صارفین کو تسکین مل سکتی ہے، ان شااللہ اگلے چند دنوں میں آپ کو بجلی کے بلوں میں کمی سے متعلق خوشخبری ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ احساس ہے کہ بجلی کے بلوں اور مہنگائی سے عوام پریشان ہیں، بجلی کے بلوں میں کمی کئے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا، بجلی کے بلوں میں کمی کئے بغیر ہماری برآمدات نہیں بڑھ سکتیں۔ حکومت کونئے آئی ایم ایف پروگرام کے لئے توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا ہے۔اب تو صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کے بل لوگوں کے گھر وں کے کرایوں کی شرح کو پیچھے چھوڑ دیا ہے،بھاری بلوں کی ادائیگی کی استطاعت نہ رکھنے والے شہری اپنا قیمتی متاع بیچ کر بل کی ادائیگی کرتے ہیں اب تو ان کے پاس فروخت کرنے کو بھی کچھ نہیں بچااور یہ صورتحالروز بروز سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے کیونکہ ٹیرف میں اضافہ اور آئی ایم ایف کے قرض کی شرائط کی تعمیل کے لئے دیگر اصلاحات نے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا ہے۔ بلوم برگ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹس کے مطابق حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرضہ حاصل کرنے کی خاطر اپنے امکانات کو تقویت دینے کے لئے صنعتی اور خوردہ نرخوں میں اضافہ کرنا شروع کیا تھا تب(2021) سے بجلی کی قیمتوں میں 155فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پاکستان دائمی معاشی بحران سے دوچار ہونے کے باعث توانائی کاشعبہ سردرد بن گیاہے۔ تقریباً 12 فیصد مہنگائی جو ایشیا میں سب سے زیادہ ہے اور بجلی کی کھپت کو چار سالوں میں کم ترین سطح پر دھکیل دیا ہے کیونکہ لوگ اور کمپنیاں بنیادی طور پر گیس سے چلنے والے قومی گرڈ سے بجلی لینے کی بجائے سولر پینلز لگانے کے حق میں جا رہے ہیں۔مگر حکومت شمسی توانائی اپنی مدد آپ کے تحت حاصل کرنے والوں پر بھی ٹیکس عائد کرنے اور دیگر طریقوں سے ان کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے اور لوگ بھاری رقم لگا کر بھی سکھ کا سانس نہیں لے سکتے جبکہ اس کی عدم استطاعت کی حامل صارفین کی حالت زار تو ناقابل بیان ہے اس سے اندازہ لگایئے کہ صرف گزشتہ ایک ماہ کے دوران گھریلو صارفین کے لئے بجلی کی اوسط فی یونٹ قیمت میں 18فیصد اضافہ ہوا ہے۔ان حالات میں وزیر اعظم نے اگلے چند دنوں میں بجلی کے بلوں میں کمی سے متعلق خوشخبری کی امید دلائی ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ حکومت کو مہنگی توانائی اور اسکے مضمرات کا ادراک ہے امر واقع یہ ہے کہ بجلی کو سستا کیے بغیر صنعتی ترقی اور برآمدات میں اضافہ ممکن نہیں تاہم یہ ریلیف اسی صورت کارگر اور دیرپا ثابت ہو سکتا ہے جب سبھی طبقات اس سے مستفید ہوں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ وقتی ریلیف پیکیج کے بجائے دوررس اقدامات کیے جائیں۔ مہنگی بجلی کے جس مسئلے نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے اسکی جڑیں دہائیوں کے غلط فیصلوں اور ناکام منصوبہ بندی میں ہیں۔ توانائی کا مسئلہ گزشتہ لگ بھگ ڈیڑھ دہائی سے ہے اور ہر حکومت وقتی اور چند نمائشی اقدامات سے اس مسئلے سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتی رہی۔ حالیہ عرصے میں یہ مسئلہ اس شدت سے نمایاں ہو کر سامنے آیا کہ اب عوام بھی جانتے ہیں کہ مہنگی توانائی کے پیچھے آئی پی پیز معاہدوں کی ناروا شرائط مہنگے اور درآمدی ایندھن والے بجلی گھر بوسیدہ ترسیلی نظام اور بجلی خسارے کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی پالیسی جیسے عوامل کارفرما ہیں۔ البتہ ماہرین اس حوالے سے ایسے ماڈلز اور تجاویز پیش کر چکے ہیں جن سے اس مسئلے سے نجات پائی جا سکتی ہے۔ دیکھا جائے تو اس مسئلے کا مستقل اور دیرپا حل متبادل توانائی کے منصوبوں کا فروغ ہے۔لیکن بدقسمتی سے اس حوالے سے صارفین کی کوششوں کی راہ میں حکومتی پالیسیاں رکاوٹ بن رہی ہیں بجائے اس کے کہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور سہولیات دی جائیں ماحول دوست اور سستے توانائی منصوبوں سے بے اعتنائی کا نتیجہ ایک طرف مہنگی بجلی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگر پاور سیکٹر میں عارضی پالیسیوں اور ناقابلِ عمل دعووں کے بجائے گردشی قرضوں کو مینج کرنے کی ہی کوئی قابلِ عمل سکیم بنا لی جاتی تو یقینا یہ مشکلات جو آج ملکی اقتصادیات پر بوجھ بنی ہوئی ہیں کا مداوا کیا جا سکتا تھا۔کسی بھی سماج میں توانائی کی زیادہ کھپت زیادہ پیداوار کی علامت تصور ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں توانائی کے شعبے میں مسلسل بڑھتی بے انتظامی اور کل خسارے کی صارفین پر منتقلی عوامی قوتِ برداشت کا امتحان لے رہی ہے۔ اگر2020 کی آئی پی پیز انکوائری رپورٹ کے بعد ہی موثر اقدامات کر لیے جاتے تو آج حالات کہیں بہتر ہوتے۔اگرچہ اس شعبے میں ریلیف مشکل کام ہے لیکن توقع کی جانی چاہئے کہ وزیر اعظم نے عوام سے جو وعدہ کیا ہے وہ کوئی بہلاوا نہیں ہوگا بلکہ حکومت نے اس حوالے سے کوئی ٹھوس پالیسی وضع کی ہو گی جس پر عملدرآمد سے بجلی صارفین کو کمر توڑ بلوں سے قدرے چھٹکارا ملے۔

مزید پڑھیں:  '' وہ'' بھی ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد