1 149

کورونا سے سنتھیارچی تک براستہ قومی اقتصادی کونسل

کورونا کی صورتحال وہی ہے یعنی پھیل رہا ہے اب اس کی وجہ سے دوسرے کام چھوڑے تو نہیں جا سکتے نا دیگر موضوعات کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ مشرق کے ایک قاری جناب شمس اللہ مروت کا مشورہ بھی یہی ہے وہ کہتے ہیں۔ ”شاہ جی! بس کریں بہت ہو گیا کورونا کورونا، آپ سیاسی موضوعات پر لکھیں، تاریخ وادب اوربزرگ اولیائے کرام پر، کورونا بس اللہ کی مرضی سے جائے گا۔ یہ امتحان ہے مسلمانوں کیلئے”۔ ہم سے قلم مزدوروں پر پڑھنے والوں کی رائے کا احترام واجب ہے اسلئے آج کورونا کی کوئی بات نہیں ہوگی۔ کیا ہوا اگر گزشتہ روز ساڑھے چھ ہزار نئے کیسز سامنے آگئے اور85افراد جان سے گئے یا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ چودہ ہزار ہوگئی ہے۔ شمس اللہ مروت کیساتھ ملکر ہم سب دعا کرتے ہیں۔ گوکہ دعا کیساتھ احتیاط اور دوا ضروری ہے مگر جو کام دعا سے ہوسکتا ہے وہ کیوں نہ کرلیا جائے۔ ہم آگے بڑھتے ہیں پیٹرولیم مصنوعات کی عدم دستیابی کا گیارہواں روز (یہ سطور لکھتے وقت) ہے۔ بدھ کو جناب وزیراعظم نے اس معاملے کی سنگینی کا احساس ہونے کے بعد ہنگامی اجلاس بلایا اور بحران کے ذمہ داروں کیخلاف سخت کارروائی کا حکم دیا۔ میرے پاس تو شکر ہے سائیکل تک نہیں البتہ عزیز واقارب اور ہم وطنوں کو پچھلے گیارہ دنوں سے جن مشکلات کا سامنا ہے وہ محسوس کر سکتا ہوں۔ جناب وزیراعظم نے بھی یقینا ٹی وی چینلوں پر دربدر معاف کیجئے گا پیٹرول پمپ ٹو پیٹرول پمپ دھکے کھاتے ہم وطنوں کو دیکھ کر ہنگامی اجلاس طلب کیا اور اصلاح احوال کیساتھ کارروائی کا حکم دیا۔ بحرانوں اور مسائل سے دوچار ملک میں اس اہم نوعیت کے عوامی مسئلہ پر وزیراعظم نے توجہ دی بلکہ نوٹس لیا، اس پر ان کا شکریہ بنتا ہے۔ شکریہ جناب وزیراعظم۔
قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس بھی بدھ کے روز ہوا،1300ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی بجٹ کی منظوری بھی دی گئی۔ دستور کے مطابق قومی اقتصادی کونسل کا سال میں دو بار اجلاس منعقد کرنا لازمی ہے۔ بدھ والا اجلاس مہینہ پندرہ دن قبل بلایا جاتا تو بہتر ہوتا معاملات پر تفصیل کیساتھ بحث ہو سکتی، صوبے اپنی سناتے وفاق اپنے دکھڑے بیان کرتا، یہ بجٹ سے محض دو دن قبل اجلاس بلانا اور چھو منتر قسم کے فیصلے۔ وفاق اور تین صوبوں میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔سندھ پیپلزپارٹی کے پاس’ وہی پیپلزپارٹی جس کا نام سن کر وزیراعظم، ان کے نئے نویلے مشیر شہباز گل اور ایک امریکی شہری سنتھیا ڈی رچی کا خون کھولنے لگتا ہے۔ خیر اس سنتھیا ڈی رچی کو چھوڑیں، آگے چل کر اس پر بات کرتے ہیں ابھی تویہ ہے کہ بدھ کے روز منعقد ہونے والے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کے آئینی ہونے پر وزیراعلیٰ سندھ نے سوالات اُٹھادیئے ہیں۔ان کا الزام ہے کہ انہیں اجلاس میں شرکت کیلئے وزیراعظم ہائوس کی طرف سے منع کردیا گیا اور کہا گیا ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوں۔ وہ (مرادعلی شاہ) ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے لیکن انہیں بات نہیں کرنے دیا گیا، سندھ کو اپنے آئینی حق کے استعمال سے روکا گیا جو غلط ہے۔ سندھ کی سکیموں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا، مرادعلی شاہ نے الزام لگایا کہ وہ اسلام آباد جانے کیلئے ایئر پورٹ پہنچ چکے تھے کہ انہیں ٹیلیفون پر سختی سے اسلام آباد آنے سے منع کر دیا گیا۔
مراد علی شاہ کے مؤقف کو محض پیپلزپارٹی کا مؤقف کہہ سمجھ کر رد کر دینا یا شہبازگل کے جوابی بیان پر ایمان لے آنا ممکن نہیں، ایک اعزازی (بغیر تنخواہ) مشیر کو وہی کام کرنا چاہئے جو اس کیلئے ہے اور جس میں اسے بھرپور ”تجربہ” بھی ہے۔ اقتصادی رابطہ کونسل آئینی ادارہ ہے، لازم ہے کہ اس کے فیصلے اتفاق رائے سے ہوں، کثرت رائے سے فیصلے کو قانونی تحفظ کہاں لکھا ہے، یہ بتانا بہتر طور وفاق کا کام ہے۔ ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے اگر وفاقی نمائندے شرکت کر سکتے تھے دیگر کو بھی شریک ہونے کا دستوری حق حاصل تھا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ کے اعتراضات کے بعد کونسل کے بدھ10جون کے فیصلوں کی قانونی حیثیت پر سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وفاق اور خود جناب وزیر اعظم کو نہ صرف ان کا جواب دینا چاہئے بلکہ اس امر کی وضاحت بھی کہ ایک صوبے کے بغیر اقتصادی رابطہ کونسل کے فیصلوں کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟
اب آتے ہیں پاکستانی سیاست میں دھانسودار انٹری مارنے والی امریکی شہری سنتھیا ڈی رچی کی طرف۔ کاروباری ویزے پر پاکستان میں مقیم اس خاتون کا ویزہ مارچ میں ختم ہو چکا، مارچ کے بعد سے وہ کس حیثیت میں اور کس کے تعاون سے مقیم ہے؟ صحافی’ وی لاگر’ ہدایت کار’ فلم ساز ہونے کی دعویدار اس خاتون کا ویزہ ”کاروباری ویزہ” ہے۔ کیا کاروبار ہے؟ حساس مقامات پر اس کی رسائی کیسے ممکن ہوئی، بعض اہم مقامات پر اسے بریفنگ دی گئی کس حیثیت میں۔ ان کا پس منظر’ تعلیم’ امریکی شناخت کی مکمل تفصیلات بارے سوالات ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ انہوں نے مارچ2020ء میں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے سابقہ تفصیلات ڈیلیٹ کردیں۔ امریکہ میں پچھلے چند سالوں کے دوران ان کے قیام کی دو شہادتیں سامنے آئی ہیں، اولاً ایک اقلیتی فرقے کی عبادت گاہ کے مہمان خانے اور دوسری ایک سابق پاکستانی شوبز شخصیت علی سلیم جوکہ بیگم نوازش علی کے نام سے پروگرام کرتے رہے کے ہاں قیام۔ کچھ تجزیہ نگار جن تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں وہ صریحاً غلط بھی نہیں، ایک صحافی کی حیثیت سے فرائض کی ادائیگی کیلئے چند بار بیرون ملک جانا پڑا سو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ دوسرے ملک میں غیرملکی صحافی کو کتنی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دو رہنما سید یوسف رضا گیلانی اور رحمن ملک اسے ہرجانے کے نوٹسز بھجوا چکے۔ یہ ان کا مسئلہ ہے’ میرا سوال بہت سادہ ہے ایک ایسی غیرملکی خاتون جس کا ویزہ بھی ایکسپائر ہوچکا اسے ہمارے بعض ادارے لاڈلے مہمان کی طرح شہر شہر کیوں لئے پھر رہے ہیں؟ نا معلوم پس منظر والی یہ خاتون ہمارے اداروں کی آنکھوں کا تارا کیوں ہے؟۔

مزید پڑھیں:  سرکاری و نجی ہائوسنگ سکیموں کی ناکامی