منکی پاکس ، احتیاطی تدابیر

عالمی سطح پر ہیلتھ ایمرجنسی اور پاکستان میں اب تک منکی پاکس کے9کیس رپورٹ ہونے کے بعد ملک بھر میں انٹرنیشنل ہوائی اڈوں اور سرحدوں پر ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ مردان میں ایک مریض میں تشخیص ہوئی ہے۔ محکمہ صحتکے ذرائع کے مطابق ملک کے مختلف شہروں بشمول مردان، کراچی میں اب تک منکی پاکس کے نو مثبت کیس رپورٹ کئے گئے ہیں جن میں سے ایک مریض کی ہلاکت بھی ہوئی ہے ۔ وزارت صحت پاکستان نے تمام صوبوں کو منکی پاکس کے حوالے سے فوکل پرسنز مقرر کرنے کی ہدایت کردی ہے ۔ افریقی ممالک میں اس وائرس نے شدید صورت اختیار کی ہے اور کورونا کی طرح اس وائرس کے بھی دنیا میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے کا خدشہ ہے، اس خطرے کے پیش نظر عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دنیا بھر میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ہے اور اس کے ساتھ محکمہ ہائے صحت کے لئے تشخیصی، علاج اور وائرس سے بچائو کے لئے گائیڈ لائنز بھی جاری کی گئی ہیں۔ خصوصی طور پر ملک بھر کے ہوائی اڈوں پر افریقی ممالک سے آنے والے افراد کی مانیٹرنگ اور سکریننگ کی ہدایت کی گئی ہے۔امکان ہے کہخیبر پختونخوا میں پولیس سروسز ہسپتا ل پشاور میں اس قسم کے مریضوں کے لئے الگ وارڈز مختص کردئیے جائیں گے جہاں پر ایئر پورٹ پر سکریننگ میں مشکوک ثابت ہونے والے افراد کو یہاں پرقر نطینہ کیا جائے گا ۔کرونا کی ابتداء پر جس قسم کا ہوا کھڑا کیا گیا اور لوگں کو خوفزدہ کرنے کے اقدامات کئے گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سخت اور مشکل وقت کو بھی محکمہ صحت کے حکام اور دیگر اداروں کے بعض عاقبت نا اندیش عناصر نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا وہ تلخ باب دہرانے سے گریز کیا جائے لیکن بہرحال ان خدشات اور تجربات کے پیش نظر اس امر کی گنجائش نہیں کہ اس حوالے سے اقدامات سے گریز کیا جائے کرونا کی وباء کو ہوا بنانے میں ذرائع ابلاغ نے جو کردار ادا کیا وہ مثبت نہ تھا ساتھ ہی سرکاری اداروں کی طرف سے بھی انتظامات و اقدامات کی اس قدر تشہیر کی گئی کہ بتائے گئے خطرات سے خدانخواستہ آدھی آبادی شایدباقی نہ رہے مگر سارے اندازے غلط ثابت ہوئے ایسے میں ماضی کی غلطیوں کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ذرائع ابلاغ اور سرکاری مشینری دونوں ذمہ دارانہ کردار کا مظاہرہ کریں تاکہ معاشرے میں کوئی ایسا خوف نہ پھیلے کہ لوگوں کا رزگار اور کاروبار متاثر ہو کرونا کے دور میں جس طرح دو عملی اختیار کی گئی وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی ایک جانب لاک ڈائون ہوتی تھی تودوسری جانب بی آر ٹی کی بسیں کھچا کھچ بھری ہوئی جاتی تھیں اس مرتبہ اطلاع ضرور دی جائے اقدامات بھی ہوں لیکن ان کی تشہیر و مبالغہ پر مبنی اقدامات کے نتیجے میں لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی نوبت نہیں آنے دینا چاہئے ۔ یہ بیماری کیا ہے اور کیسے پھیلتی ہے اور اس سے بچائو کی احتیاط تدابیر کیا ہونی چاہئے صورتحال اور حالات کو اس تک محدود رکھنے کی ضرورت ہے کرونا کے دور میں معاشی اور کاروباری حالات پھر بھی بہتر تھے اب تو لوگ بجلی کے بلوں اور گھر کے کرایوں کی ادائیگی کے بعد بمشکل جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھ پاتے ہیں حکومت کے پاس بھی عوام کی دستگیری کے لئے زیادہ وسائل نہیں ایسے میں احتیاط کا سامن تھامتے ہوئے معمولات زندگی او کاروبار حیات کو جاری رکھنے کا ماحول ضروری ہے ۔اس وائرس کی سب سے پہلی شناخت 1970ء میں ہوئی اس مرتبہ کے وائرس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ بطور خاص قابل تشویش بات یہ ہے کہ اس کی نہ صرف منتقلی کی طرح زیادہ ہے بلکہ یہ گزشتہ اقسام کے مقابلے میں زیادہ مہلک بھی ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کا ہنگامی حالت کا اعلان کرنے کا فیصلہ صورتحال کی سنگینی کو واضح کرتا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے خطرے کے ضمن میں، پاکستان کا نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر ملک کی تیاریوں کا جائزہ لے رہا ہے۔ این سی او سی کی جانب سے ایک ایڈوائزری جاری کی گئی ہے، اور انفیکشن کے پھیلائو کو محدود کرنے کے لئے رابطے کا سراغ لگانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔اس مرحلے پر یہ ضروری ہے کہ کووڈ19 کے دور کی روک تھام، اسکریننگ اور نگرانی کے طریقہ کار کو فعال کیا جائے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ انفیکشن موجود ہے۔توقع کی جاتی ہے کہ ٹیسٹنگ کٹس کی دستیابی، داخلے کے مقامات پر سخت اقدامات کے قیام اور ممکنہ وبا پر قابو پانے کے لئے تنہائی کی سہولیات کی تیاری پر توجہ مرکوز کی جائے گی حکومت کو چوکنا رہنا چاہیے اور اپنی نگرانی اور ردعمل کی صلاحیتوں کو بڑھانا جاری رکھنا چاہئے۔ وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے مسلسل چوکسی اور عوامی بیداری بھی بطور خاص اہم ہے۔ یہ ضروری ہے کہ وائرس، اس کی علامات اور یہ کیسے پھیلتا ہے کے بارے میں بار بارمعلوماتی مہم چلائی جائے تاکہ عوام کو انفیکشن اور اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں اچھی طرح سے آگاہی حاصل ہو۔

مزید پڑھیں:  بجلی کی بچت۔۔یا گھاٹے کا سودا؟