دنیا کے تمام اقوام اپنی آزادی کا دن مناتے ہیں ۔اس دن وہ اپنے قومی مزاج کو خوش منانے کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔مجھے دو ایک ممالک کے قومی دنوں کو ان کے ملک میں مناتے دیکھنے کا موقع ملا ہے ۔ان ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ممالک کے ایک ایک عمل سے دل کو خوشی ملتی تھی ۔ مگر ہمارے ملک میں گزشتہ کچھ عرصہ سے اس دن جو طوفان بدتمیزی مچایا جاتا ہے وہ کسی بھی طرح مہذب قوموں کا شیوا نہیں ہے ۔اس دن سڑکوں اور ہسپتالوں کے سامنے جو شور ڈالا جاتا ہے ۔ اس کی مثال کہیں اور نہیں ملے گی ۔اس ملک میں اب واضح دو طبقے بن گئے ہیں ۔ ایک طبقہ ایسا پنپ رہا ہے جس کے پاس کوئی اخلاقی قدر نہیں ہے وہ ہر قدر کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔آزادی کے دن ہونا تو یہ چاہئیے کہ ہم عہد کریں کہ قانون کی پاسداری کریں گے ۔ مگر اس دن پاکستان کی سڑکوں پر جو کچھ ہوتا ہے وہ بیان سے باہر ہے ۔ ناخلف والدین چھوٹے چھوٹے بچوں کو موٹر سائیکل ، رکشوں ، چینچیوں میں اور گاڑیوں میں لے کر باہر نکلتے ہیں ۔ان معصوم بچوں کو کان پھاڑنے والے باجے دئیے جاتے ہیں جس سے یہ اتنی طوفان بدتمیزی مچاتے ہیں کہ الاآمان ، اگر بدقسمتی سے آپ اپنی فیملی کے ساتھ کسی ضروری کام سے باہر نکلتے ہیں اور ان اوباشوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ میں کن لوگوں میں آگیا ہوں ۔ اس دن کے لیے یہ نوجوان اپنی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے سلینسر نکال لیتے ہیں جن کی شور سے آپ کے کان کے پردے پھٹنے لگتے ہیں ۔ یہ روڈ بلاک کرکے پولیس کی موجودگی میں شریف عورتوں اور بچیوں کے ساتھ جو بدتمیزی کرتے ہیںاس کی مثال کہیں نہیں ملتی ، نوجوان اس دن اپنے دوستوں کو پیچھے بٹھا کر ون ویلنگ کرتے ہیں ۔ جس سے اس دن اتنے حادثے ہوتے ہیں کہ ہسپتالوں میں ایمرجنسی لگانی پڑتی ہے ۔یہ سب کچھ کافی عرصہ سے لاہور ، پنڈی اور کراچی میں ہوتا تھا مگر کچھ برسوں میں جس شدت سے یہ پشاور میں ہورہا ہے وہ بہت خطرے کی بات ہے ۔اس لیے کہ پشاور کے مضافات اور کچی آبادیوں میں رہنے والے مقامی اور افغانی اس دن ہر حد پار کردیتے ہیں ۔اس دن اتنی ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے جیسے کوئی جنگ چھڑ گئی ہو۔لاہور میں تو باقاعدہ خواتین کو ٹارگٹ کرکے چھیڑا جاتا ہے ۔جس کی ایک مثال دو برس پہلے ایک ٹک ٹوکر کے ساتھ ہونے والا واقعہ ہے ۔جبکہ پوش علاقوں میں بگڑے بچے اپنی گاڑیوں سے جو کچھ کررہے ہوتے ہیں وہ بھی ناقابل بیان ہے ۔پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جس کے ساتھ بھی زیادتی ہوجائے خاص کر خواتین کے ساتھ لوگ اس کی رپورٹ درج نہیں کرواتے ۔اور خاموشی اختیار کرتے ہیں جس سے ان کو اور شہ ملتی ہے اور اگلی بار وہ اور شدت کے ساتھ اس عمل کو دھراتے ہیں ۔پشاور کے بورڈ بازار ، یونیورسٹی روڈ اور ناصر باغ روڈ فیز تھری چوک میں افغان شہری جس طرح اس دن پاکستان کے قوانین کی دھجیاں اُڑتے ہیں وہ صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے تیرہ اور چودہ اگست کی رات اس روڈ سے سفر کیا ہو ۔حکومتی سطح پر اس سلسلے میں جو غفلت برتی جارہی ہے وہ مستقبل میں بہت زیادہ نقصان کا حامل ہوگا ۔ہمارا تعلیمی نظام سرتا پا رٹاہے اس میں صبح سکول میں اور شام کو اکیڈیمیوں میں بچوں کو ہر وہ غیر قانونی طریقہ سکھاتے ہیں جس سے وہ امتحان میں زیادہ نمبر لے سکیں۔انہیں اخلاقیات کسی بھی سطح پر نہیں سکھائے جاتے ۔آپ اس ملک کے کسی بھی ہسپتال میں چلے جائیں وہاں کے عملے کا برتاؤ مریضوں کے ساتھ اتنا خراب ہوتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اس ملک کا پڑھا لکھا طبقہ غریبوں کو لوٹنے میں لگا ہوا ہے ۔ یہاں کے پولیس کا رویہ دیکھیں ایسا لگتا ہے جیسے باقی لوگ ان کے بیگار کیمپوں میں رکھے گئے غلام ہیں ۔امیر اور طاقتور کے لیے اس ملک میں سب جائز ہے لیکن اس ملک کا نوے فیصد حصہ اب ذہنی طور پر ہار مان چکا ہے ۔ پشاور شہر میں نشہ کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ آپ دنیا کے کسی بھی علاقے کے لوگوں سے اس کا موازنہ نہیں کرسکتے ۔اب تو نشہ کرنے والے پولیس کی پرواہ ہی نہیں کرتے بلکہ آپ کو زیادہ تر نشہ کے عادی افراد پولیس تھانوں کے سامنے نظر آئیں گے ۔کراچی ، لاہور ، اسلام آباد اور دیگر پوش شہروں کے ان آبادیوں میں جہاں حرام کے پیسے سے پلنے والے بچے رہتے ہیں وہ جو جو حرکتیں کرتے ہیں وہ تو شایدہمارے اجتماعی لاشعور میں کہیں فٹ ہی نہیں ہوتے ۔بیٹا اپنے اس باپ کو قتل کروادیتا ہے جو اسے ماہانہ لاکھوں روپے دیتا ہے اسے کروڑوں کی گاڑیاں لے کردیتا ہے ۔اس کی ہر ناجائز خواہش پوری کرتا ہے ۔پوش علاقوں میں سینکڑوں کلب کھل گئے ہیں جہاں اس ماحول کے بگڑے بچیاں اور بچے سر شام نشہ کرنا پہنچ جاتے ہیں اور پوری پوری رات اس کام میں مصروف رہتے ہیں ۔ ان کو کوئی اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔آزادی کا دن ایک ایسا دن ہوتا ہے جہاں قوموں کا مزاج سامنے آتا ہے ۔ان کی تہذیب نظر آتی ہے ۔ اس سلسلے میں ہمارے ملک کے مذہبی طبقوں کا کردار بھی بہت ہی عجیب ہے ۔ جمعے کے خطبوں میں آپ کو اس سلسلے میں کوئی تقریر سننے کو نہیں ملے گی ۔بس وہ بھی ایک ایسی نسل تیار کررہے ہیں جو ان کے لیے زندہ باد مردہ باد کرسکے اور ان کی عیاشی جاری رہے ۔جب تک ہم نظام تعلیم کو اور اپنی ضرورتوں کا تعین نہیں کرتے اور اس سلسلے میں راست اقدام نہیں اٹھا تے اوراخلاقیات سے عاری اور پاکستان دشمن افغانستانی شہریوں کو یہاں سے رخصت نہیں کرتے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس خرابی میں سب کا حصہ ہے لیکن اس کو ٹھیک کرنے کے لیے کوئی آگے نہیں آرہا ہے ۔