دہشت گردی کے بڑھتے واقعات

ور سک روڈ پیر بالا چوک میں دہشت گردوں نے پولیس کو ریموٹ کنٹرول بم سے اڑا دیا۔ حملہ میں2پولیس اہلکار اور3راہ گیر زخمی ہوگئے۔ ورسک روڈ پر ایک ہفتہ میں پولیس پر چار بم حملے ہو چکے ہیں جس سے یہ خطرناک ترین علاقہ بن چکا ہے۔دریں اثناء ملم جبہ روڈ تلیگرام پولیس چوکی پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کے خلاف اور پولیس اہلکاروں سے اظہارِ یکجہتی کے لئے علاقہ کے عوام نے امن مارچ کیامقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ سیکورٹی فورسز اور انٹیلی جنس اداروں کے ہوتے ہوئے سوات میں ایک دفعہ پھر دہشت گرد کیسے سرگرم ہو ئے ہیں۔ یہ ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آئندہ اس قسم کے واقعات رونما ہوئے، تو پورے سوات کے عوام کو نکالیں گے اور بھر پور احتجاج کیا جائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا سے ایران جانے والے زائرین پر بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر صوبائی حکومتوں کی مشاورت کے بعد زائرین خیبرپختونخوا کے راستے جانے کی بجائے پنجاب کا راستہ استعمال کریںگے۔ صوبے میں پیش آنے والے مختلف واقعات اور بنک کیشن وین لوٹنے کے پے درپے واقعات سے اس امر کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ بلائوں نے ایک بار پھر انوری کا گھر دیکھ لیا ہے اس کی دیگر وجوہات اور خدشات سے قطع نظر صوبے میں امن وامان کی صورت حال پریہ واقعات سوالیہ نشان ہیں جس پر عوام کی طرف سے اظہار تشویش اور صوبے میں عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ فطری امر ہے مشکل امر یہ ہے کہ پولیس اور سی ٹی ڈی ٹی کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے لئے وہ تحرک نظر نہیں آتا جوحالات کا تقاضا ہے جبکہ فوجی آپریشن پر علیحدہ سے تحفظات کااظہار کیا جارہا ہے جو بھی ہو انسداد دہشت گردی کے موثر اقدامات اور اچھی انٹیلی جنس کے مظاہرے کی ضرورت ہے جب تک ان عناصر کو ان کی کمین گاہوں میں جا نہیں لیا جائے گا اور ان کی بہتر نگرانی کے ذریعے ہدف کی طرف بڑھتے قدموں کو روونے کی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں ہوگا اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی توقع نہیں۔

مزید پڑھیں:  راہ حق کے شہیدوں اور غازیوں کو سلام