اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے تو عوام روز ہی شکایات کرتے ہیں، اور انتظامیہ کی بے حسی کا رونا روتے رہتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے کسی بھی با اختیار کانوں پر جوں رینگنے والا محاورہ بھی اپنی افادیت کب کا کھو چکا ہے، مگر جب ہم روٹیوں کی قیمتوں کے تعین کے بارے میں انتظامیہ اورنانبائیوںکے درمیان جنگ کا جائزہ لیتے ہیں تو پلڑہ کسی بھی طرف جھکے اس کی زد میں عوام ہی آتے ہیں اور بری طرح پسے جاتے ہیں، کبھی وزن کم کر دیا جاتا ہے تو کبھی قیمت میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، ہر صورت میں شکار عوام ہی ہوتے ہیں، اس سلسلے میں نانبائی جس طرح کبھی آٹے کی قیمتوں اور کبھی گیس کے بلوں میں اضافے کے معاملات کو جواز بنا کر عوام پر ” روٹی بم” گراتے رہتے ہیں، ان کے آگے انتظامیہ بے بس ہوتی ہے اور ان کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر روٹین کے سٹیریو ٹائپ بیانات کی دھمکیاں دیکر خاموشی سے سر جھکا دیتی ہے، چند ماہ قبل جس طرح پشاور کی تاریخ میں ایک انوکھی صورتحال پیدا ہوئی اور انتظامیہ نے دو ،دو وزن اور دو، دو قیمتوں کا تعین کر کے پاپڑ نما روٹی کیساتھ ساتھ ڈبل( وزن) کی روٹی کے الگ نرخ مقرر کئے ،ہم نے اسی وقت کہا تھا کہ چند روز کے بعد ڈبل (وزن) کی روٹی کا وزن بھی کم کر کے وہی سرکاری نرخ ( 30 روپے) وصول کئے جائیں گے اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا، اب ایک بار پھر دوم دو اوزان کو ختم کر کے ایک ہی وزن کی روٹی کی قیمت میں 5 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے، تاہم یہ صورتحال کب تک برقرار رہتی ہے اس کیلئے انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑے گا ،عوام کے استحصال کا یہ سلسلہ کب رکے گا ؟۔