خیبر پختونخوا میں276غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیز کیخلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جبکہ133خلاف ضابطہ یا تاحال منظوری کی منتظر ہائوسنگ سوسائیٹز کی منظوری6ماہ کے اندر اندر کرنے کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے ۔ محکمہ بلدیات خیبر پختونخوا کی دستاویز کے مطابق صوبے میں اس وقت 276ہائوسنگ سکیمیں غیر قانونی ہیں جن کیخلاف تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشنز نے کارروائی کی ہے محکمہ بلدیات کے مطابق غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیز کے خلاف کارروائی کے لئے پولیس کو ایف آئی آرز درج کرنے کی درخواست کی ہے تاہم اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوسکی ہے ۔صوبے میں وقتاً فوقتاً غیر قانونی ہائوسنگ سکیموں کے خلاف کارروائی کا عندیہ اور ان سکیموں کو باقاعدہ نوٹسز کا اجراء بھی ہوتا رہا ہے لیکن اس کے باوجود نہ تو غیر قانونی ہائوسنگ سکیمز کی روک تھام ہوسکی ہے اور نہ ہی زرعی اراضی پر کنکریٹ کے پہاڑ کھڑی کرنے کے عمل کی روک تھام ہوسکی ہے اب عقدہ کھلا ہے کہ اس راہ کی ایک بڑی رکاوٹ محکمہ بلدیات کی سفارش پر ان عناصر کے خلاف پولیس کی جانب سے ایف آئی آرز کے اندراج سے احتراز ہے اس بارے دو رائے نہیں کہ اس طرح کی ہائوسنگ سکیمز کے مالکان یا تو از خود بااثر افراد ہوتے ہیں حکومتی ایوانوں تک ان کی با آسانی رسائی ہوتی ہے یا پھر وہ بھاری نذرانہ دے کر کام چلا لیتے ہیں جس کے باعث چشم پوشی کا وتیرہ اختیار کیا جاتا ہے مشکل امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں سرکاری محکموں میں اختیارات کی تقسیم اور روابط کا فقدان ہے کوئی بھی محکمہ دوسرے محکمے کی اعانت کے بغیر کسی غیر قانونی عمل کو موقع پر رکوانے کا مجاز نہیں اس خلاء کا بھر پور فائدہ قانون شکنوں کو ہوتا ہے یہاں بھی یہی معاملہ سامنے آیا ہے جس کا تقاضا ہے کہ صوبائی حکومت اس کانوٹس لے اور تحقیقات کے بعد جس جس محکمے کی جانب سے ملی بھگت اور پہلوتہی سامنے آئے اس کے خلاف کارروائی کی جائے محولہ شکایات کے مطابق پولیس کی ملی بھگت اور قانون کے نفاذ کی عملی سعی سے احتراز واضح ہے جس کا آئی جی خیبر پختونخوا کو فوری نوٹس لینا چاہئے اور جس جس تھانے اور پولیس افسر کے ماتحت عملے نے قانون کے نفاذ میں عدم دلچسپی کامظاہرہ کیا ہے ان سب کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے اور آئندہ کے لئے اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ سرکاری مشینری مربوط اور فعال طور پر کام کرے اور بروقت عملی اقدامات بلاتاخیر ہونے کو یقینی بنایا جائے۔