خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں 2013ء میں احتساب کمیشن کی تشکیل ہوئی اور 2018ء میں احتساب کمیشن کے خاتمے کا بل اسمبلی سے منظور کرکے اس کا خاتمہ کر دیا گیا اس پر ایک ارب چھبیس لاکھ روپے خرچ کئے گئے لیکن اس کا نہ تو مضبطو ڈھانچہ بنایا گیا اور نہ ہی احتساب کا کوئی قابل ذکر کام ہوا کمیشن کے سربراہ کی تقرری اور اختیارات کے استعمال کا عمل بھی تسلی بخش نہ تھا موجودہ حکومت میں بھی ایک اور سعی کی گئی لیکن حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلائے مرجھائے گئے کے مترادف قرار پایا ۔ کمیٹی کے بااختیار ہونے اور بانی چیئرمین کی ہدایت کے مطابق احتساب کے عمل کا آغاز تو ہوا لیکن شاید پہلی ہی ارتعاش سے در و دیوار ہل گئے تھے جس کی بناء پر پٹڑی بدلنے کی نوبت آگئی اور خیبر پختونخوا میں وزراء ، مشیروں، معاونین خصوصی اور سرکاری محکموں کی مانیٹرنگ کے لئے قائم نگران کمیٹی کا طریقہ کار اچانک تبدیل کر دیا گیا سہ رکنی کمیٹی کی جانب سے وضع کردہ طریقہ کار کے مطابق کسی بھی سرکاری محکمہ سے متعلق شکایت کی صورت میں متعلقہ وزیر ، مشیر یا معاون خصوصی کو آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ شکایت کا ازالہ کریں اور پھر اس بارے میں کمیٹی کو آگاہ کیا جائے حکومتی ٹیم ارکان کوشکایت اور ٹھوس ثبوت کی صورت میں ہی طلب کیا جائے گا اس بارے میں ذرائع نے بتایا ہے کہ کسی بھی سرکاری محکمہ کے بارے میں شکایت کی صورت میں معاون خصوصی برائے ا ینٹی کرپشن ان سے رابطہ کرتے ہوئے معاملات کو دیکھیں گے کمیٹی اپنی کارروائی کی روداد سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور بانی پی ٹی آئی کو مسلسل آگاہ رکھے گی۔طریقہ کار میں تبدیلی کی فوری وجہ کیا بنی اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی اس کا وقت اہم اور قابل توجہ اس لئے ہے کہ ایک صوبائی وزیر کے بعد دیگر تین صوبائی وزراء کے احتساب کی بھی باز گشت تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ پہلی کارروائی کے بعد ہی دبائو اور سیاسی معاملات میں ممکنہ بگاڑ کا سامنا کرنا شاید مشکل ہو رہا تھا برطرف یا پھرمستعفی ہونے والے وزیر نے اسمبلی میں سارا معاملہ طشت ازبام کرنے اور کچھ پردہ نشینوں کو بھی بے نقاب کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر اسمبلی کا اجلاس ہی ملتوی کر دیاگیا ایک دو روزقبل اس صورتحال پر مخالفانہ بیان دینے والوں کے بعد کے بیانات سے اس امر کا عندیہ ملتا ہے کہ درون خانہ معاملات کو سنبھالنے کا عمل جاری ہے جو کسی سیاسی حکومت میں اچھنبے کی بات نہیں سیاسی جماعتوں میں اختلافات او رگروپ بندیاں کوئی انہونی بات نہیں جس سے قطع نظر اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبے میں احتساب کے عمل کا مستقبل کیا ہوتا ہے قبل ازیں احتساب کے لئے ایک پورا ادارہ قائم کرکے اور باقاعدہ قانون سازی کرکے اس کو تحفظ دینے کے بعد کوئی کامیابی حصے میں نہیں آئی بلکہ بھار ی سرکاری وسائل کے خرچ کے بعد اس کی ناکامی کابھی طوق گلے میں ڈالنا پڑا ۔ موجودہ حکومت میں تو ایک کمیٹی ہی تشکیل دی گئی تھی جس سے احتساب کے موثر عمل کی تو نہ تو توقع کی جا سکتی ہے اور نہ ہی سہ رکنی کمیٹی کے لئے یہ ممکن ہوگا کہ وہ جملہ معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اپنا کردار ادا کرے لیکن اس کے باوجود یہ کمیٹی کی کامیابی ہی سمجھی جائے کہ صوبے کے سب سے مشکوک محکمے کے وزیر اور سیکرٹری کے احتساب سے ابتداء کی گئی اور اگران کو موقع دیا جاتا اور وہ اپنے انہی اختیارات اور طریقہ کار کے تحت تعلیم ، صحت اور خوراک کے محکموں میں ہونے والے معاملات او ر کرپشن کی مبینہ داستانیں جن کو الزامات ہی کے دائرے میں رکھنا مناسب ہوگا ان الزامات کی تحقیقات کی جاتی اور متعلقہ وزراء اور سیکرٹریوں اور دیگر ذمہ دار عہدیداروں کو تحقیقات کے دائرے میں لایا جاتاتو ممکن ہے الزامات کی پٹاری سے کچھ مثبت و منفی چیزیں برآمد ہوتیں تحقیقات اور چھان بین کا عمل ہر دو صورتوں میں حکومت کے حق ہی میں جاتا ہے اگر الزامات کی صداقت سامنے آتی تو شفاف احتساب کا سہرا سر بندھتا اور اگرالزامات میں صداقت کا عنصر نہ ملتا تو شفافیت کا سہرا بھی حکومت ہی کے سر بندھتا اور حکومت ہی سرخرو ہوتی احتساب کے عمل میں چند ایک سخت مقامات ضرور آتے ہیں جن کا سامنے کرنے کا عزم اور ہمت ہونی چاہئے اس طرح نہ ہونے سے ہی ہر سیاسی حکومت کے دامن پر داغ لگنے کا عمل جاری رہتاہے جمہوری حکومتوں میں منظم گروپ اور مفادات کے لئے ایک ہونے اور علیحدگی کا عمل ہی وہ خرابی اور فساد کی جڑ ہے جس کے باعث احتساب کے عمل کا ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود حقیقی احتساب کی نوبت کبھی نہیں آتی محض سیاسی مخالفین پر الزام لگاکر مقدمات بنتے ہیں اور سیاسی طوفان اٹھ جاتا ہے اور سارا عمل اس کی نذر ہو جاتا ہے اس کے باوجودتوقع کی جانی چاہئے کہ خیبر پختونخوا میں عوا نے ریکارڈ تیسری مرتبہ تحریک انصاف ہی پر جس قدر غیرمتزلزل اعتماد کا اظہار کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ صوبے میں شفافیت اور صوبائی وسائل کو صوبے کے عوام کے لئے دیانتدارانہ طور پر بروئے کار لانے کا قابل اعتماد عمل ہو اور الزامات کی شفاف انداز میں تحقیقات کرکے عوام کو مطمئن کیا جائے کہ ان کی حقیقت کیا تھی تاکہ صوبے کے عوام کو اپنے فیصلے پر پچھتاوا نہ ہو اور وزیر اعلیٰ وحکومت پر ان کے اعتماد میں اضاف ہو۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments