خواتین کی یونیورسٹی میں خاتون کی ہراسانی

شہید بینظیر بھٹو وومن یونیورسٹی پشاور میں خاتون لیب اسسٹنٹ کی مبینہ ہراسانی اور ہراسانی کے حوالے سے متاثرہ خاتون لیب اسسٹنٹ کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ کو باقاعدہ تحریری شکایت کے بعد اس پر قانون کے مطابق کارروائی بلاتاخیر شروع ہونی چاہئے۔اسی طرح کی شکایات کو عموماً دبانے اور معاملہ رفع دفع کرنے کامعمول ہے درجنوں شکایات کے نتیجے میں ہراسان کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں عدم دلچسپی کامظاہرہ کیا گیا یا پھر شکایات کنند ہ خاتون کو تحقیقات کے نام پر اتنا ہراساں اور زچ کیاگیا کہ ان کو دستبردار ہونا پڑا یا پھر معاملات کو آگے بڑھانے سے مجبوراً ان کو لاتعلقی اختیار کرنا پڑی بدقسمتی سے اس ضمن میں انتظامیہ اور معاشرہ دونوں مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھی اور ان کا تحفظ دینے کے باعث بنتے چلے آرہے ہیں محولہ واقعہ چونکہ ایک ایسے ادارے میں پیش آیا ہے جو خواتین کا ادارہ ہے جہاں ہزاروں بچیاں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں اور سینکڑوں عملہ خواتین پر مشتمل ہے اس ادارے کی سربراہی بھی ایک خاتون ہی کر رہی ہیں ان سارے عوامل اور وجوہات کے پیش نظر محولہ مشکلات سے صرف نظر معاملہ نمٹانے اور رفع دفع کرنے کاعمل نہیں ہونا چاہئے بلکہ شکایات کی جامع تحقیقات کے بعد کمیٹی کو کسی دبائو میں آئے بغیر فیصلہ کرنا چاہئے جہاں تک شکایت کی صداقت اور الزام ہونے کا سوال ہے ہمارے معاشرے میں خواتین جب تک مجبور نہ ہوں شکایت کرنے سے ہچکچاتی ہیں بدنامی کا ڈر ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہے اس کے باوجود اگر ہراسانی کی شکایت ہوتی ہے تو اس کی سنجیدگی مسلمہ سمجھی جانی چاہئے اور ان کو انصاف دینے کی ہر ممکن سعی کی جانی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  خالدہ ضیاء طرز رہائی کاخواب