جشن آزادی اور دو قسم کے لوگ

حال ہی میں پاکستانی عوام نے وطن عزیز کا ستترواں یوم آزادی منایا ہے اور حوالے سے دو قسم کے لوگ تھے، پہلے وہ جن کی اس جشنِ آزادی میں کوئی بھی دلچسپی نہیں تھی بلکہ وہ یہ سوال بھی کرتے رہے کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں اور دوسری جانب وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے بھرپور انداز میں آزادی کا جشن منایا، پہلی قسم والے لوگ ملک کے موجودہ معاشی اور سیاسی حالات سے اس قدر نالاں ہیں کہ وہ کسی جشن کا نام بھی سننے کو تیار نہیں ہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی ہمیشہ سے غریب اور متوسط طبقے کے لئے بڑا مسئلہ رہی ہے لیکن یہ کبھی نہ سنا تھا کہ والدین نے اس مہنگائی کے ہاتھوں کبھی اپنی ہی اولاد کو یا بھائی نے سگے بھائی کو بجلی کے بلوں کی وجہ سے قتل کیا ہو، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس وقت عوام الناس مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں اور بنیادی ضروریات پوری کرنے کے اعتبار سے شدید مشکلات اور پریشانی میں مبتلا ہیں،جبکہ حکمران طبقہ اپنی شاہ خرچیاں اور زندگی گزارنے کا ڈھنگ بدلنے کو تیار نہیں، انہوں نے اپنے کپڑے بیچنے کی بات کی تھی لیکن ان بے حس حکمرانوں نے عوام کی چمڑی اور ہڈیوں تک کا سودا کر دیا ہے، ملکی تاریخ کے بدترین ٹیکس لگا کر حکمرانوں نے عوام کی گردن پر چھری چلائی ہے، پاکستان کو صرف نااہل حکمرانوں کی عیاشیوں اور بدعنوانیوں نے تباہ کیا ہے، ملکی خزانے میں سے ہر سال اربوں روپے سرکاری محلات کی حفاظت، مرمت، تزئین و آرائش کے نام پر خرچ کیے جاتے ہیں، ایک ایک وزیر پر غریب عوام کا سالانہ خرچ کروڑوں میں ہے، جس ملک کا بچہ بچہ قرضے میں ڈوبا ہوا ہے اور آدھے سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہو اس کے حکمرانوں کو صرف اپنے اقتدار اور مراعات کی فکر ہو اس ملک کی معیشت کا یہی حال ہوتا ہے، ملک کی موجودہ مایوس کن صورت حال کے برعکس وزیر اعظم اور صدر کے ایوانوں کا یومیہ خرچ کروڑوں میں ہے اور پچھلے دس برس میں اس میں پانچ سو فیصد اضافہ ہوا ہے، ایک جانب ہمارے سیاسی حکمران اور طاقتور اشرافیہ بادشاہوں کی طرح دریا دلی سے اسراف کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب قوم اربوں کھربوں روپوں کی مقروض ہے، لیکن عوام کے ان نام نہاد خیر خواہوں اور برائے نام جمہور پسندوں کے لیے قرض لینا ایک نشہ اور خرچ کرنا ایک تفریح ہے، ہمارے بے حس حکمران عوام کی بے بسی سے لاتعلق، اپنی شاہ خرچیوں میں ایسے مگن ہیں جیسے وہ کسی ایسی رومانوی دنیا میں رہتے ہوں جہاں مسائل کا گزر ہی نہیں، ان بے حس حکمرانوں کو ذرا سا بھی احساس نہیں کہ ہمارے قرضوں کا حجم مجموعی ملکی پیداوار کے نوے فیصد سے تجاوز کرچکا ہے، قرضوں کے اس بوجھ نے ہمارے ملک کو ان ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے، جنہیں حالیہ کچھ عرصے کے دوران اپنے واجبات کی ادائیگی میں شدید مسائل کا سامنا ہے، اور کب تک یہ ملک قرضوں پر چلے گا، ملک میں مہنگائی کا ایک سیلاب آ چکا ہے جو محنت کش عوام کی تھوڑی بہت جمع پونجی بھی بہا لے جانے کے بعد اب ان کی زندگیوں کو نگل رہا ہے، اس دوران حکمرانوں کی کرپشن کے نئے قصے ہر روز سننے کو ملتے رہتے ہیں، محنت کش عوام کے ٹیکسوں کے پیسے پر عیاشی کرنے والے حکمران اب اس موجودہ مہنگائی کی بھی بہت سی وضاحتیں پیش کرنے کی کوششیں کر تے ہیں اور عوام کو سادگی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، عوام اب ان کی کسی بھی بات پر یقین نہیں کرتے اور یہی وہ لوگ ہیں جن کا جشن آزادی سے کوئی واسطہ نہ تھا، عوام کی دوسری قسم وہ ہے جنہوں نے آزادی منانے کے نام بدتہذیبی، بداخلاقی اور بد تمیزی کے تمام ریکارڈ توڑے، سڑکوں پر ہلڑ بازی ، بھارتی گانوں پر رقص ، شوروغل اورطوفانِ بدتمیزی، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر شہر بھر میں گشت کیا گیا جس کی وجہ سے راستے بند ہوئے اور عوام کو اذیت اور کوفت کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان کی تاریخ، اس کے لئے دی گئی قربانیوں اور آزادی کی قدروقیمت سے ناآشنا نوجوان قومی پرچم کے رنگ کی شرٹ پہنے اور چہرے پر قومی پرچم کی فیس پینٹنگ کر کے گھومتے اور جھومتے رہے، منچلے تیز آواز میں باجے بجاتے اور ماچس پٹاخے بھی چلاتے رہے، یہ کون سی آزادی ہے کہ لوگوں پر فوم سپرے کئے گئے اور راہگیروں پر پانی پھینکا گیا، آتش بازی اور ہوائی فائرنگ کا سلسلہ بھی جاری رہا، موٹر سائیکلوں کے سلنسر نکال کا ون ویلنگ اور کرتب کرتے جوان لوگوں کو پریشان کرتے رہے، یہ کون سا جشن تھا کہ جس میں ہماری خواتین سے چھیڑ خانی کرکے ان کو ہراساں کیا گیا، اس دوران لڑائی جھگڑے کے بھی متعدد واقعات رونما ہوئے، ہر شہر کی اہم شاہراہوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آئیں اور ٹریفک رکی رہی، جشن کے نام پر گلی کوچوں او ر سڑکوں پر بڑے بڑے اسپیکر لگا کر تماشا لگایا گیا اور ان تماشوں میں ڈھول اور نغموں کی تھاپ پر رقص جاری رہا، قصور ان کا بھی نہیں ہے کیونکہ انہیں کسی نے یہ بتایا ہی نہیں کہ اس ملک کی بنیاد میں کتنے لاکھ شہیدوں کے اجسام دفن ہیں، کتنے ہی معصوموں کے ننھے ننھے سر شیطانوں نے تلواروں اور نیزوں پر اچھالے ہیں، کتنی بہنوں نے اپنی عصمتیں گنوائی ہیں اور کتنے ہی بزرگوں اور بھائیوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا ہے، ہماری یہ آزادی جس کا یہ لوگ اس انداز میں جشن منا رہے ہیں کئی ہولناک خونی مناظر، خوف ناک افراتفری اور خون آلود بکھری ہوئی انسانی لاشیں سے عبارت ہے، آج ہم جس آزاد ملک میں زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی مذہبی عبادات اور رسومات آزادی سے ادا کر رہے ہیں یہ ان بہادر مجاہدوں غازیوں اور شہیدوں کی قُربانیوں کی بدولت ہے جنہوں نے اس وطن عزیز کی خاطر اپنی جان مال اولاد تن من دھن سب کچھ قربان کیا ہے اور بہت سے ایسے ہیں کہ خود اس آزادی کی نوید نہ دیکھ سکے اور نہ ہی سُن سکے، یہ منچلے کیا جانیں کہ پاکستان کی تعمیر اور بنیادوں میں لاکھوں مسلمانوں کی جدوجہد اور شہداء کا خون شامل ہے، وہ لوگ جو یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم آزاد ہیں اور یوم آزادی سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ جو اس بے ہودہ انداز میں جشن آزادی مناتے ہیں دونوں کو پاکستان کی تاریخ اور قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت، کردار اور جہدوجہد سے صحیح معنوں میں روشناس کروانا آج کی سب سے اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے، انفرادی سطح پر اور من حیث القوم ہماری کیا ترجیحات اور ذمہ داریاں ہیں،ان عوامل کو پورے سیاق وسباق کے ساتھ اجاگر کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید اتنی کبھی پہلے نہ تھی،ہم سب کو اس بات کا کامل ادراک ہونا چاہیے کہ آزادی سے پہلے ہم تمام کلمہ گو مسلمان مرد، عورتیں اور بچے سب کے سب غیر مسلموں کے قبضے میں تھے، ہماری تہذیب و تمدن، ہماری ثقافت و شرافت، ہماری عزت و ناموس، ہمارا قرآن، ہمارا ایمان، ہمارا اسلام، سرورِ کائنات کا پیغام تمام کا تمام غیر مسلموں اور استبدادی طاقتوں کا غلام تھا، آج ہم آزاد ہیں اور اس پر ہم اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔

مزید پڑھیں:  تنہا پرواز نہیں!!