چند روز قبل پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کی گرفتاری اور اس کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کی خبر نے جہاں عوام کی ایک اکثریت کو چونکا دیا وہاں عسکری ادارے کے اس احتسابی عمل کو خوب سراہا بھی جا رہا ہے ۔ اگرچہ اس عمل کو ایک ہاؤسنگ کالونی کے حوالے سے الزامات اور آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے لیکن اہل دانش جانتے ہیں کہ مذکورہ جنرل کی قومی سیاست میں مداخلت ہی رنگ لائی ہے۔
سیاسی بصیرت رکھنے والے میرے دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر مُلک کے پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو بغاوت کرنے کی سزا مل جاتی تو آج یہ جنرل کسی احتسابی شکنجے میں نہ آتا ۔ قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ایک آرمی چیف کا وزیر دفاع بننا اور فیصلہ سازی میں شامل ہونا گویا ریاست کے اندر ایک دوسری ریاست قائم کی گئی ۔ جمہوریت پنپ نہ سکی اور جمہوری اداروں کو کمزور کر کے ریاست کے نظام کو تہہ و بالا کر دیا ۔ سازشیں اور آئین شکنی ہوتی رہی ، یہاں تک کہ مُلک دو لخت ہوا ۔ آج کی طرح ماضی میں بھی بیشتر سیاسی رہنما مصلحت کا شکار رہے اور کسی نے بھی آئین توڑنے والوں کے خلاف مقدمہ نہ کیا ۔ یہاں تک کہ ایوب خان نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے پہلے خود ساختہ قوانین ” پروڈا ” اور ” ایبڈو ” کے تحت بہت سے سیاست دانوں کو نا اہل کیا اور پھر ایک نئے نظام ” بنیادی جمہوریت ” کا کھیل کھیلتا رہا ۔ جب پہلے آئین شکن کا راستہ نہ روکا گیا تو قوم نے جہاں چار مارشل لا کا عذاب سہا وہاں اہل سیاست نے اپنے ساتھیوں کو قتل ہوتے ، پھانسی لگتے ، عدالتی سزائیں پاتے اور سازش کے ذریعے وزیر اعظموں کو عہدہ سے ہٹاتے ہوئے دیکھا ۔ جمہوری اقدار اور نظریاتی سوچ نہ رکھنے والوں کا تماشا بھی سب نے دیکھا کہ یہ لوگ سیاسی پراجیکٹ کے طور پہ لائے گئے ، اقتدار کے مزے لوٹے ، پھر اپنے نا خداؤں کے ہاتھوں ڈوب چلے اور رُسوا ئی الگ ہوئی ۔
اب بھی عوامی غیظ و غضب اور لعن طعن کے باوجود یہ سیاسی رہنما کسی کا اشارہ پانے کے منتظر ہیں ، انہیں ہرگز پرواہ نہیں کہ آخر میں ان کے ساتھ کیا ہوگا ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہر بار مارشل لا کو عدالت نے جائز قرار دیا بلکہ ‘ نظریہ ضرورت ‘ نے ہر مشکل آسان کر دی ۔ ایک دوسرے کی ضرورت بنے تو مرضی کے فیصلے ہوئے ، ملازمتوں میں توسیع ہوئی اور ہاں میں ہاں ملانے سے اقتدار کی مدت بڑھتی رہی ۔ ایک دو بار کسی مداخلت کے بغیر جمہوری انداز میں اور پُر امن طریقہ سے اقتدار کی منتقلی ہوئی ۔ سیاسی جماعتوں کی مثبت سوچ اور قومی مفاد میں اٹھائے گئے ان اقدام کے باعث مُلکی معیشت کو سہارا ملا ، امن عامہ بہتر ہونے لگی اور ترقیاتی پیش رفت ہوئی ۔ جونہی محلاتی سازش کے تانے بانے جوڑے گئے تو کبھی دھاندلی کے الزامات ، کبھی طویل دھرنے ، لانگ مارچ ،توڑ پھوڑ ،گالم گلوچ ، اسمبلی کا محاصرہ اور اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ۔ ہمارے سیاسی قائدین کے اس طرزِعمل نے مُلک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا اور جس کے منفی نتائج سماجی ، معاشی اور ذاتی سطح پر ہم سب بھگت رہے ہیں۔
اس سیاسی مداخلت ، منتخب حکومتوں کے خلاف بغاوت اور جوڑ توڑ سے ہمارا جمہوری نظام کمزور ہو چکا ہے ، اہل سیاست اسی پہ خوش ہوتے ہیں کہ اپنی حکومت کا بننا اور دوسرے کو اقتدار سے ہٹانا ہی قومی مفاد میں ہے ۔ جمہوریت نام کو رہ گئی اور سیاست کو کاروبار میں بدل ڈالا ۔ لوگوں کو یہاں سیاسی پراجیکٹ کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے ، وہ عام سے خاص ہو جاتا ہے اور پھر قومی رہنما بن کر محض قوم سے کھیل رہا ہوتا ہے ۔ جب ان کا آپس میں مفاداتی ٹکراؤ اور تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو پھر کل کا مسیحا ، آج غدار قرار دیا جاتا ہے ۔ ایک دوسرے کے بارے ہررائے تبدیل ہو جاتی ہے، کئی انکشافات ہونے لگتے ہیں اور قوم ان صاحبان اقتدار اور بڑے بڑے عہدہ داروں کے کردار پہ حیران و پریشان ہوتی ہے ۔ ان سیاسی مداخلتوں اور سازشوں میں کئی عنا صر شامل ہوتے ہیں ، صنعتکار ، سرمایہ دار، رئیل سٹیٹ مافیا اور میڈیا مالکان جو اس پورے عمل میں سہولت کار بنے رہتے ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے افلاطون صبح شام کسی ایک کا راگ الاپ رہے ہوتے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پہ بھی بکاؤ مال کی اب کمی نہیں، لوگوں کی ذہنی آلودگی میں وہ بھی اپنا پورا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اس احتساب اور ایسے کرداروں کی نشاندہی کے بعد جو بھی نتیجہ نکلے ، لیکن ضروری امر یہ ہے کہ ہر حوالہ سے سیاسی مداخلت ختم کرنی ہو گی تاکہ جمہوری عمل آگے بڑھتا رہے ، اہل سیاست کو اپنے معاملات جمہوری انداز میں طے کرنے ہوں گے ، کسی کے دروازے اور اشارے کی طرف نہیں دیکھنا ۔ اداروں کو اپنا وقار بحال اور عدلیہ کو اپنا اعتماد قائم رکھنا ہو گا ۔آئین کی بالا دستی اسی میں ہے کہ اسے محض کاغذ کا ٹکڑا نہ سمجھا جائے ۔ مُلک کے تمام ادارے اہم ہیں ، اہل سیاست وطن سے محبت رکھتے ہیں ، اب وقت کا یہی تقاضا ہے کہ اپنے اپنے ذاتی مفادات سے بالا ہو کر مُلک کی تعمیر و ترقی میں بھر پور مثالی کردار ادا کریں ۔ تمام سیاسی جماعتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ حقیقت میں سیاسی جماعتیں بن کر نئی نسل کی ذہن سازی کریں کہ وہ جمہوری اقدار کے امین بن سکیں ۔
Load/Hide Comments