”اتھارٹی سے کرپشن تک”

حال ہی میں عالمی ادارے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میری نظر سے گزری،رپورٹ کے مطابق پاکستان میں محکمہ پولیس سب سے زیادہ کرپٹ ادارہ ہے،ٹینڈر اینڈ کانٹریکٹ ڈیپارٹمنٹ کو دوسرے اور عدلیہ کو کرپشن میں تیسرے نمبر پر قرار دیا گیا۔اس رپورٹ نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہم نے ایک پْرامن تحریک پاکستان کے نتیجے میں آزاد مملکت تو حاصل کرلی لیکن ہم قیام پاکستان کے اغراض ومقاصد کو بھلا کر کرپشن کو اپنا مقصد حیات کیوں بنا بیٹھے ہیں؟ مشاہدے میں آیا ہے کہ پاکستانی لوگ ہر سطح پر کرپشن کرتے ہیں تاکہ برتری کا مقام بنائے رکھا جائے۔بچے کی پیدائش پر ڈاکٹروں،نرسوں کو رشوت دی جاتی ہے کہیں ان کا لڑکا یعنی بچہ کسی دوسرے بچے،بچی کے ساتھ تبدیل نہ کردیں۔ہسپتالوں میں نارمل بچوں کی پیدائش کی نسبت آپریشن سے بچوں کی پیدائش کراتے ہیں تاکہ ہمیں کھانے کیلئے ملے۔اس کے بعد بچے کے کوائف اندراج پر رشوت لی جاتی ہے۔یاد رہے طاقت سے خریداری میں آسانی رشوت کی سب سے بڑی وجہ ہے تاکہ اپنی مرضی کے کام آسان بنائے جائیں جو نہیں دے سکتے ان کیلئے کام مشکل بنا دیا جائے۔یہاں کسان،مزدور یا نچلی سطح پیداوار کے حاملین تمام ترقی کے ذمہ دار ہیں،انتظامی امور کے ماہرین ان کا استحصال کرکے ان کی محنت کو اپنے نام کرلیتے ہیں۔پاکستان میں کرپشن کی سہولیات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں لوگوں کو زندہ رہنے پر کوئی فائدہ نہیں دیا جاتا بلکہ مرنے پر ان کے وارثین کو اتنے لاکھ روپے کی مدد کی جائیگی وغیرہ وغیرہ۔اسی طرح ملک بھر غیر معیاری تعلیمی اداروں کی فراوانی،گھوسٹ سکولوں،کالجز،امتحانی پرچوں کی خریدوفروخت،جعلی ادویات کی فراہمی،عدالتی کاروائی کیلئے جھوٹے گواہوں کی دستیابی،سرکاری ملازمتوں کے حصول کیلئے اقرباء پروری وغیرہ یہ سب میری نظر میں وہ چند عوامل ہیں جو ہماری قومی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ اس مرض میں مبتلا تو ہے ہی مگر اس سے زیادہ حیرت کی بات اور دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمیں احساس بھی نہیں ہوپاتا کہ ہم کس کیساتھ کیا زیادتی کر رہے ہیں؟۔اکثر اوقات میں نے خود یہ سنا ہے سرکاری دفاتر میں کہ کرپشن عام ہے جی یا تو رشوت ہو یا بہت بڑی سفارش تب ہی آپ کا کام ہوسکتاہے۔بطور صدر KPPCA,اور ایسوسیٹ ممبر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں کرپشن اور سینٹ میں میڈیکل اور پیرامیڈیکل بل امینڈمنڈ کیلئے سینٹ جانے کی وجہ سے ان سیاستدانوں اور خاص طور پر سینٹرز کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور میڈیکل، پیرامیڈیکل ترمیمی بل 2024 سے متعلق بیٹھنے کا موقع بھی ملا۔مجھ سے میرے دوستوں نے پوچھا کہ تمہارے پاس کرپشن کیخلاف کیا دلائل ہیں؟، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی کوئی مثال دو،میں نے کہا مثال نہیں کتاب(کلارا پاشا رپورٹ) مکمل سوفٹ ویئر شوکت خانم پشاور کے ایل آر ایچ میں اور بھی بہت مثالیں ہیں،میں نے کہا چلو یہ بتاؤ کوئی واقعہ ایسا ہوا ہے کہ جس میں کرپٹ حکمران یا آفیسرز کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا ہو،انہوں نے بہت کوشش کی کہ کوئی نام ڈھونڈ لائیں مگر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔یہاں ہر کوئی اس بات کا رونا روتا ہے کہ معاشرہ بگاڑ کا شکار ہے۔دن بدن تنزلی کی طرف جارہا ہے،کرپشن ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔لیکن میرا ایک سوال ہے کیا زبانی جمع خرچ سے کرپشن ختم ہوجائیگی؟ بلکہ اس میں تو اضافہ ہی ہو رہا ہے۔میں نے بہت قریب سے دیکھا کہ یہاں بڑے سے بڑا کرپٹ فرد بھی قانون کی موشگافیوں کا سہارا لیکر باآسانی چھوٹ جاتا ہے۔
دنیا بھر میں سماجی ومعاشرتی واخلاقی تعلیم میں (Problem Solving Techniques) سکھائی جاتی ہیں جبکہ پاکستان کے نظام تعلیم وصحت وغیرہ میں (Problem Creating Techniques) سکھائی جاتی ہیں۔یاد رہے جہاں سائنس نہیں پنپ سکتی وہاں نقلی سائنس پروان چڑھتی ہے اور جہاں نقلی سائنس پروان چڑھتی ہے وہاں جمہوریت بھی پھلتی پھولتی نہیں،جہاں انصاف،دولت کی تقسیم اور مواقع برابر ہوں تو سبسڈی دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔یہ کام حکومتوں کے نہیں ہوتے بلکہ غربت پر پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے لیڈروں کے پاس ویژن نہیں ہوتا وہ غربت پر نہیں غریب کی باتیں کریں گے،تعلیمی نظام کی نہیں سکولوں کی تعداد کی بات کریں،نوکریوں کی بات کریں، پروفیشنلزم کی بات نہیں کریں گے۔ پشاور کے تین بڑے ہسپتالوں میں معمولی سکیل کمپیوٹر آپریٹرز کو اپنے غلط مقاصد کیلئے اہم عہدوں پر بٹھا دیا ہے جسکے باعث ہسپتال اور مریضوں کا برا حال ملاحظہ ہے۔میں ایک ڈاکٹر ہوں اپنے شہر کے گورنمنٹ ہسپتال میں سرکاری ڈیوٹی لگی ہے اور اسی شہر میں ذاتی کلینک بھی ہے جو ہسپتال سے زیادہ دور نہیں ہے۔ہسپتال کے مقامی افسر نے مجھے اجازت دی ہے کہ آپ اپنے کلینک پر ڈیوٹی کرتے رہو، ہمارے ہسپتال والے جو بیمار ہوتے رہیں گے ان کو ہم آپ کے پاس بھیجتے رہیں گے۔یہاں نشہ کے ڈیلر قوم سے رقم بٹور کر قوم کیلئے تباہی کے گڑھے کھود رہے ہیں ،ایسے افراد ملک وملت کے ہی نہیں انسانیت کے بھی دشمن ہیں۔اگر پولیس اور عوام منشیات کیخلاف ایکساتھ میدان عمل میں آئیں تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ منشیات فروشوں اور نشہ بازوں کا ٹھکانہ صرف جیل ہوگا۔پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں بس اس کے وسائل کو لٹنے سے بچانے کیلئے مناسب اقدامات کی ضرورت ہے۔کرپشن میں ملوث لوگوں کی پراسکیوشن نہ ہونے کے باعث ملزمان کے چھوٹنے کی شرح بہت زیادہ ہے،کسی بھی قوم کی مضبوطی اور استحکام کیلئے ضروری ہے کہ اس کی اخلاقی روایات ، سماجی اقدار ،عدل وانصاف اور دیانتداری کی بنیاد پر مضبوط مستحکم اور پائیدار ہوں۔

مزید پڑھیں:  ہسپتالوں میں فارمیسی شاپس