ایک ا یسے وقت میں جب وفاقی حکومت پبلک سیکٹر کی درآمدات کا پچاس فیصد گوادر پورٹ کی طرف موڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور دوسری جانب خیبر پختونخوا میں طورخم سرحد پر کم از کم چار ہزار ٹرکوں کے بیک وقت آمد اور پارکنگ کے پاک چین منصوبے پرعملدرآمد جاری ہے جو معاشی مشکلات سے د وچار ملک کے لئے بطور خاص اہمیت کے حامل اور حوصلہ افزاء منصوبے ہیں ایسے میں بلوچستان کے طول و عرص میں پہلے سے جاری بدامنی کے واقعات میں مزید شدت اور قیمتی جانی نقصانات گاڑیوں اور املاک کی تباہی کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے ضلع بولان میں ریلوے پل کو دھماکے سے تباہ کرکے ٹرین سروس کی معطلی پاکستان کے معاشی شہ رگ کونشانہ بنانے کے مترادف ہے کچھ اسی طرح کی دہشت گردی خیبر پختونخوا میں بھی خوارج کی جانب سے جاری ہے ہر دو کا مقصد ایک ہی لگتا ہے کہ پاکستان میں خدانخواستہ کبھی امن نہ آئے اور وطن عزیز معاشی مشکلات سے نکلنے میں کامیاب نہ ہو بلوچستان میں بظاہر تو یہ عمل ناراض بلوچ عناصر کا ہے لیکن اس کے پس پردہ گوادر پورٹ کے شروع ہونے سے متاثر ہونے والے عناصر اور پاکستان کو معاشی مشکلات کا شکار بنائے رکھنے کے خواہاںکئی ممالک اور عالمی طاقتوں کا گٹھ جوڑ ہے جو ناراض بلوچوں کو اسلحہ اور رقم دے کر استعمال کر رہے ہیں یہ سارا عمل ایک طرف لیکن اس کی پرچھائیوں میں ناراض بلوچوں اور بلوچستان کے عوام کی احساس محرومی اور ان سے ہونے والی مسلسل نا انصافی کو بھی سراسر فراموش نہیں کیا جا سکتا البتہ بعض لوگوں کوان کی ملک دشمن قسم کی سرگرمیوں کا کوئی بھی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا جو لوگ سڑکوںپر پرامن طریقے سے احتجاج کر رہے ہیں حکومت ان کے تحفظات دور کرنے میں غیر سنجیدگی اختیار کرکے ان کو مایوس کرنے کی غلطی کر رہی ہے لیکن اس کی آڑ میں بھی ان عناصر کو پناہ دینے کی ہرگز گنجائش نہیںجو صوبے میں منظم دہشت گردی اور ملک دشمنی پر اتر آتے ہیںگوادر پورٹ کے جزوی طور پر ہی کام شروع کرنے کے موقع پر جس طرح بلوچستان بھر کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو تشویشناک حد تک بگاڑنے کے جس منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ ملکی سا لمیت پر حملہ ہے جس کی نہ تو کوئی توجیہہ پیش ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس کی گنجائش ہے بلوچستان میں پیش آنے والے بہت سے واقعات کی تو رپورٹ تک نہیں ہوتی صرف گزشتہ روز کے واقعات ہی کاجائزہ لیاجائے تو تشویشناک صورتحال کی نشاندہی ہوتی ہے جن میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مسلح افراد کی جانب سے مختلف مقامات پر بیک وقت حملے کیے گئے ہیں سکیورٹی فورسز کے کیمپ، لیویز اور پولیس تھانوں کو نشانہ بنایا گیا۔دوسری جانب ضلع موسی خیل میں بلوچستان کو پنجاب سے ملانے والی شاہراہ سے 22 افراد کی لاشیں ملی ہیں جنہیں گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے۔ مسلح افراد نے کئی اہم قومی شاہراہوں پر ناکے لگا کر متعدد مسافروں کو یرغمال بنایا ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو اسی ہفتے قتل کیا گیا۔حکام کے مطابق اتوار اور پیر کی درمیانی عسکریت پسندوں نے کوئٹہ، مستونگ، قلات، لسبیلہ اور موسی خیل اور گوادر سمیت مختلف اضلاع میں بیک وقت حملے کیے۔کالعدم بلوچ مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے صوبے کی کئی اہم شاہراہوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔یہ حالات ایسے نہیں جن کو نظرانداز کیا جاسکے ایک جانب جہاں گوادر پورٹ اور سی پیک کے مختلف منصوبوں کی قریب قریب تکمیل اور بعض میں پیش رفت خوش آئند امر ہے وہاں دوسری جانب بلوچستان کے پورے صوبے میں انتشار کی صورتحال تشویشناک امر ہے جس کا تقاضا ہے کہ حکومت ایسے ناراض عناصر جن کے تحفظات دور کرکے اور گمشدگان کی تلاش و واپسی یقینی بنا نے کی ضرورت وہاں بلوچستان کے محرومیوں کا شکار عوام کی خاطر خواہ اشک شوئی کے لئے اب غیر معمولی اقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے جس میں تاخیر کی گنجائش نہیں یہاں تک کہ اس کے لئے گوادر پورٹ اور سی پیک کی معاشی سرگرمیوں کا بھی انتظار نہ کیا جائے دوسری جانب ان سے ریاست و حکومت بات چیت کے لئے غیر معمولی نرمی اور درگزر کی پالیسی اپنا کر ان کو راہ راست پر لانے کی سعی کرے اور بندوق اٹھانے والوں کے لئے عام عافی کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ مطیع ہونے والوں کی معاشی بحالی و اصلاح کے بھی اقدامات اٹھائے اور جو عناصر اس کے باوجود ریاست و حکومت کے مقابلے پر آئیں ان کا پوری قوت سے صفایا کیاجائے بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کا شکار بنانے میں وفاق کا اتنا ہاتھ نہیں جتنا حکومت کو بدنام کرنے والے عناصر کاہے بلوچستان کے عوام کو محرومیوں کا شکار بنانے والے وہ سردار اور وڈیرے و جاگیردار ہیں جو وفاق اور ان کے درمیان غلطی فہمی ہی کا ماحول بنا کر مفادات حاصل نہیں کرتے بلکہ ان کو ملنے ولے وسائل بھی ہڑپ کرکے ان کو پسماندہ رکھے ہوئے ہیں وفاق اور بلوچستان کے عوام کو ان مشترکہ دوست نما دشمنوں سے ہوشیار رہنا چاہئے۔