کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں

ہمارے نمائندے کے مطابق نامعلوم مسلح افراد نے تحصیل کلاچی میں تین سگے بھائی آفیسرز اور تحصیلدار بھانجے کو مسجد میں فاتحہ خوانی کے دوران اسلحہ کے زور پر اغوا ء کر لیا۔ اغواء ہونے والوں میں کنٹونمنٹ بورڈ کے آفیسر ،این سی ایچ ڈی کے افسران اور محکمہ مال کا تحصیلدار شامل ہیں۔دریں اثناء ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آرمی افسر اور ان کے دو بھائی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا)کے ملازم ہیں، تینوں ڈیرہ اسمعیل خان کی تحصیل کولاچی کے محلے خادر خیل کی مسجد میں موجود تھے جہاں شہری ان کے والد کے انتقال پر تعزیت کے لیے آرہے تھے کہ اسی دوران اسلحے کے زور پر مشتبہ عسکریت پسندوں نے انہیں اغواء کرلیا ۔یاد رہے کہ یکم اگست کو کولاچی کے علاقے ہتھالہ پولیس اسٹیشن کی حدود میں مسلح مشکوک افراد نے 4کروڑ روپے کی رقم لے جانے والی نجی سکیورٹی کمپنی کی وین کو نذر آتش کر کے افراد رقم لوٹ کر فرار ہوگئے تھے۔اسی طرح 27اپریل کو جنوبی وزیرستان کے ڈسٹرکٹ اور سیشنز جج شاکر اللہ مروت کو کولاچی کے علاقے سے اغوا ء کیا گیا تھا، تاہم واقعے کے کچھ دیر بعد ہی وہ گھر لوٹ گئے تھے۔ڈیرہ اسماعیل خان میں بطور خاص اور مضافاتی علاقوں میںسرکاری اہلکاروں کا اغواء ، ججوں کے قافلے پرحملے اور ایک سیشن جج کے اغواء کے واقعے کے ساتھ ساتھ بنک کیش لوٹنے کی پراسرار طور پر کامیاب اور محفوظ وارداتوں کا ایک تسلسل جاری ہے جس کی روک تھام کے لئے سرکاری اقدامات کے نہ ہونے تماشائی کا کردار ادا کرتے رہنے سے تشبیہ دینا غلط نہ ہو گا تازہ ترین واقعہ دو لحاظ سے سنگین ترہے ایک یہ کہ والد کی وفات کی تعزیت کے لئے بیٹھے ہوئے افراد کا اغواء معاشرتی طور پر بدترین واقعہ ہے جس کا ایک مہذب معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا سوگوار خاندان کے ساتھ تعزیت اور ہمدردی کے اظہارکے موقع پر اس قدر سنگین حرکت اس امر پر دال ہے کہ اس کے ذمہ دارعناصر کوسوائے نفرت اور دہشت پھیلانے کے اور کسی ترجیح کاشاید ہی علم ہو ایسا اس طرح کے عناصر ہی کر سکتے ہیں جن کی ابتداء سے لے کر اس مرحلے تک پرورش روایتی معاشرے سے ہٹ کر ہوئی ہو جو اخلاقیات اور دینی تعلیم و تربیت سے یکسر عاری ہوںاس طرح کے موقع پر اس قسم کی کارروائی سے معاشرے میں سخت افسوس کا اظہار فطری امر ہے اغواء کاروں کا مقصود بھی شاید یہی ہو دوم یہ کہ حساس عہدے پر تعینات سرکاری افسران اوراہلکاروں کا اس طرح سے اجتماعی اغواء بھی کم سنگین واقعہ نہیں اس کے باوجود کہ بعض اطلاعات کے مطابق لیفٹیننٹ کرنل نے ڈی آئی خان ٹاسک فورس کو اپنی آمد کی پیشگی اطلاع بھی دے دی تھی اس کے باوجود ان کی حفاظت میں اس قدر غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ ناقابل فہم ہے ان کے اغواء کے بعد راستے میں اور کسی بھی چیک پوسٹ پر ان کو نہ روکا جانا اور حسب سابق کامیابی سے واردات کی تکمیل بھی سوالیہ نشان ہے جس کا بظاہر تو امکان نہیں ہونا چاہئے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکام نے ہاتھ باندھ کر علاقے اور وہاں کے عوام کو دہشت گردوں کے حوالے کر دیا ہو اس واقعے سے قبل ہی سرکاری افسران اور خاص طور پر حساس عہدوں کے افراد کی پیشگی حفاظت کا بندوبست اورعلاقے میں کسی بھی ممکنہ واقع پر فوری طور پر حرکت میں آنے والی فورس کی تعیناتی ترجیحی بنیادوں پر ہونی چاہئے نیز ممکنہ اغواء اور دہشت گردی کے خطرات کے باعث حساس نوعیت کے فرائض کی انجام دہی کرنے والوں کے اداروں کو بھی حفاظتی اقدامات احتیار کرنے پر توجہ کی ضرورت تھی مگر حیرت انگیز طورپر کسی بھی جانب سے کچھ بھی اقدامات نہ کرنے کی روایت یہاں بھی سامنے آتی ہے ہمارے ہاں بدقسمتی سے ہر اقدام اس وقت ہی اٹھانے کا رواج ہے جب پانی سر سے اونچا ہو جائے خیبر پختونخوا میں دنیا بھر سے کوارڈ کاپٹر، ڈرون، نائٹ سائٹ اور گوگلز کی ترسیل جاری ہے، شہری آن لائن ممنوعہ اشیاء خرید کر بآسانی گھر بیٹھے انہیں حاصل کرلیتے ہیںہمارے تئیں صرف آن لائن ان اشیاء کا حصول ہی مسئلہ نہیںکارخانو مارکیٹ میں بالخصوص اور دیگر جلہوں میں بھی بالعموم اس طرح کی اشیاء با آسانی دستیاب ہیں جن کا عام استعمال نہیں ہوتا اور اس کی طلب اور گاہک مخصوص قسم کے عناصر یا پھر شوقین افراد ہی ہو سکتے ہیں اولاًاس طرح کے کاروبار کی مکمل روک تھام کی ضرورت تھی اور اگر کسی مصلحت کے باعث ایسا ممکن نہ تھا تو ان دکانوں پر خریداری کے لئے آنے والے عناصر اور آن لائن اس طرح کی اشیاء منگوانے والوں پر نظر رکھنے اور ان کی سرگرمیوں کا تعاقب کرنے کی ضرورت تھی مگر اس بارے بھی حسب روایت تساہل برتی جاتی رہی ہے اور اب بھی یہی صورتحال ہے اس طرح جب کھلے عام راستہ کھلا چھوڑا جائے گا تو پھر کسی بھی قسم کے اقدامات بعید نہیں اور مزید کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  تنہا پرواز نہیں!!