گھمبیر صورتحال

مہنگی بجلی اور ٹیکسوں کے خلاف ملک گیر اور کامیاب ہڑتال سے واضح اور ثابت ہے کہ تاجر برادری حکومتی پالیسیوں سے کس قدر نالاں اور کس قدر عدم اعتماد اور عدم تعاون کی صورتحال ہے عوام کے جذبات بھی مختلف نہیں اور ان کے مسائل ومشکلات اور حکومت سے شکایات کی بھی صورت تاجروں کے ردعمل سے مختلف نہیں غرض ہر طبقہ حکومتی پالیسیوں سے نالاں اور آتش فشاں پر بیٹھا ہینئے مالی سال میں بمشکل دو ماہ گزرے ہیں اور ان حکومتی اقدامات جس پر تاجر معترض ہیں ابھی عملدرآمد شروع نہیں ہو سکا ہے کہ پریشر گروپس سرگرم ہو گئے ہیں۔ شروع سے ہی مختلف تجارتی اداروں کی جانب سے اس کی مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ وہ بے تحاشا افراط زر، پست معاشی سرگرمی اور بجلی کے نرخوں میں خاطر خواہ اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے، اسکیم کے تحت ان کے لیے دی گئی رعایتی ٹیکس کی شرح کو بھی ناقابل قبول سمجھتے ہیں۔ ہڑتال میں سندھ، پنجاب اور کے پی کے بیشتر بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ وفاقی دارالحکومت میں بھی نمایاں شرکت دیکھنے میں آئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدم اطمینان کی آوازیں کتنی مضبوط ہیں۔ تاہم ان کا موقف بہرحال غیر معقول اس لئے ہے کہ پاکستان اس وقت کی سخت مالی مشکلات سے دو چار ہے شہریوں اور ان کی ریاست کے درمیان تعلقات میں ٹیکس ہمیشہ ایک حساس موضوع ہوتا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں، خاص طور پر جماعت اسلامی، بڑھتی ہوئی مہنگائی کے درمیان عوام کے لیے ریلیف کا بجا طور پر مطالبہ کرتی رہی ہے، لیکن ان مطالبات کو تاجروں کی جانب سے مسلسل مراعات کے لیے لابنگ سے جوڑنا پاکستان کے بحرانوں کی بنیادی وجوہات کو سمجھنے کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہماری ریاستی سطح کی پالیسیاں، بہت طویل عرصے سے، خصوصی مفاداتی گروپوںکو دی جانے والی چھوٹ کی قیمت ہمیشہ دوسرے شہریوں نے زیادہ ٹیکسوں اور مہنگائی کی صورت میں ادا کی ہے۔ لہذا، اگر یہ عام پاکستانیوں کے لیے ریلیف ہے جو سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں، تو انھیں تاجروں سے ان کے واجبات ادا کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ ان کی توجہ اس بات کو یقینی بنانے پر مرکوز رہنی چاہیے کہ حکومت اپنی آمدنی کو منصفانہ طریقے سے بڑھاتی ہے اور پھر اسے اپنے ذاتی مفادات کی بجائے صرف اور صرف عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے۔پاکستان میںتقریباً 32 لاکھ رجسٹرڈ تاجر ہیں جن میں سے ایک لاکھ 45 ہزار ہی ریٹرن جمع کرواتے ہیں جس میں سے بھی بہت سے خالی ہوتے ہیں ملکی نظام چلانا ہے تو یہ دستاویزی معیشت کے بغیر ممکن نہیں بنا بریں ان سے ہمدردی ہونے کے باوجود بھی ان کی مکمل حمایت کی گنجائش نہیں۔

مزید پڑھیں:  بیربل اور آئی ایم ایف کے مطالبات