”نوکری تو باپ کی بھی نہیں اچھی”

تقریباً ہر مزدور جانتاہے کہ مئی 1886ء تک مزدور اور غلام میں بہت کم فرق تھاپھر شکاگوکے مزدوروں کی یونین نے اس کے خلاف آواز اٹھائی یوں سارے دن میں صرف آٹھ گھنٹے کام کرنے کا قانون نافذہوااور اس کے بعد اگر کام کروانا ہے تو مزدور کو اس کی ہرگھنٹہ کے حساب سے اجرت دی جائے گی۔ تاہم آجروں نے اس کا بھی فائدہ اٹھایا اور مزدوروں بلکہ دفتروں کے بابئوں اورافسروں تک کو آٹھ گھنٹوں سے زیادہ کام دیا جاتاہے اور ظلم یہ کہ ان زائد گھنٹوں کا کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا اگر کوئی بولتاتو اسے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑتے۔ یہ محاورے تو آپ نے اکثر سنے ہوں گے کہ ” نوکر کیا اور نخرہ کیا” ، ” نوکری تو باپ کی بھی نہیں اچھی”، ” نوکر ساری عمر نوکر ہی رہتاہے” ”ہے بہت سخت بندۂ مزدور کی اوقات” وغیرہ وغیرہ اور یہ بات تو ملازمین چاہے وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری اچھی طرح جان چکے ہیں کہ نوکر نہ صرف ساری عمر نوکر ہی رہتاہے بلکہ کاروباری شخص کی نسبت ہمہ وقت مصروف بھی رہتاہے۔ اس کا ذہن ہمیشہ اپنے کام کے ادھورے رہ جانے یادوسرے دن مکمل نہ کرسکنے کی وجہ سے افسر سے ڈانٹ سننے بلکہ بعض اوقات سرزنش کے غم میں مبتلاء رہتاہے۔ اور یہ المیہ صرف تیسری دنیاکے ممالک کا نہیں یا صرف ایشیاء کا نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ کے کئی ممالک بھی اس کے متاثرین میں سے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں کئی اداروں کا تو ملازمین پر اتنا اثر ہے کہ وہ ان سے مقررہ وقت سے زیادہ نوکری بھی کرواتے ہیں اور ملازمت کے اوقات کے علاوہ اوقات میں بھی انہیں مختلف زریعہ سے رابطہ کرکے ان کے کام کے بارے میں معلومات بھی لیتے ہیں اور انہیں کام گھر پر بھی مکمل کرنے کی ہدایت بھی دی جاتی ہے۔
زبردستی کا اوور ٹائم غریب ممالک نہیں بلکہ ترقی پزیر اور ترقی یافتہ ممالک میںبھی لیا جارہاہے اس پر مزید ظلم یہ کہ ملازمین کو اس کے خلاف بولنے کی اجازت یہاں پر بھی نہیں اور یورپ و امریکہ میں بھی نہیں ہے۔ آجر کی طرف سے فون کال یا ای میل کرکے کام دیا بھی جاتاہے اور پھر اس کی پراگرس بھی مانگی جاتی ہے ، دیر سویر ہوجانے پر سرزنش کا بھی سامنا کرسکتاہے ۔ ظلم کی انتہاء تو یہ ہے کہ اسے کسی ادارہ یا عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا جاسکتاکیونکہ قانون اسے ایسا کرنے کا حکم دیتاہے اور آجر جب چاہے اسے اپنا کام دے سکتاہے ۔ اس طرح ملازم ہمہ وقت ان کے زیر اثر رہتاہے اس کی اپنی نجی یا زاتی زندگی کچھ بھی نہیں اس کا گھر بار اور بیوی بچے اس بات پر اعتراض کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ انہیں روز اول ہی حکم دے دیا جاتاہے اپنے گھروالوں اور دوست احباب کو باور کروادیںکہ بھئی میں کسی کا ملازم ہوں اور اب اس کے رحم و کرم پر ہوں ۔ میں نے اپنے بیوی بچوں یا دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ کوئی بھی پلان بنایا ہواہے گھر میں کوئی پروگرام کرنے یا کہیں پکنک کرنے یاگھومنے پھرنے کا ارادہ بنا لیاہے لیکن کام والی جگہ سے یا دفتر سے ایک فون کال یا ایک ای میل اس سارے پروگرام کو تباہ وبرباد کرسکتاہے۔ یہاں پھر یہ کہنا حق بہ جانب ہوتاہے کہ ” پروگرام تو وڑ گیا” ۔
وہ تو شکر ہے کہ گزشتہ ہفتے آسٹریلیا کی حکومت نے یہ قانون بنادیاہے کہ اب یہ ظالمانہ رویہ نہیں چلے گا دفتر کے اوقات کے بعد نہ تو آجر کام کا کہہ سکتاہے اور نہ ہی ملازم اس بات کا پابند ہے کہ اس کے کسی فون کال کو اٹنڈ کرے یا اس کے کسی ای میل کو پڑھ اور جواب دے۔ اس قانون کے نفاز کے بعد آسٹریلیا ان دو درجن ممالک میں شامل ہوگیا ہے کہ جن میں یہ قانون نافذہے۔ یاد رہے کہ ان میں اکثر ممالک یورپ اور لاطینی امریکہ کے ہیں۔ اس کا مطلب ہے اب بھی امریکہ جیسے عوامی حقوق کے علمبردار ملک کی بیشتر ریاستوں میں یہ ظالمانہ قانون نافذہے ۔ امریکہ کہ جسے ہم دنیا کا عوامی حقوق کا ٹھیکیدار کہتے ہیں وہاں پر انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور ان کے خلاف کسی قسم کی شنوائی نہیں ہوتی ۔ ہم غریب ملکوں والے روتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بس یہ ظالمانہ قانون ہے لیکن امریکہ اور یورپ میں اس انسانی تذلیل کا سن کر تو دل خون کے آنسو روتاہے۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانی نے قومی نشریاتی ادارہ کو انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح ملازم کو چوبیس گھنٹوں کی اجرت نہیں دی جاتی اسی طرح اسے ملازمت کے اوقات کے علاوہ کام دینا یاڈسٹرب کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ ایک انسانی صحت کا معاملہ ہے اس طرح لوگ اپنے کام کے رابطے سے منقطع ہوں گے تو اپنے خاندان یا دوستوں سے جڑیں گے اور ذہنی سکون پائیں گے۔ پاکستان جیسے ملک میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جہاں ملازمین کو خود حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم سے کم تنخواہ تک نہیں دی جاتی اور نہ ہی حکومت خود اپنے حکم پر عملدرآمد کراسکتی ہے باقی مراعات سہولیات اور ملازمین کا خیال رکھنے کو تو چھوڑ ہی دیں۔

مزید پڑھیں:  گرڈ سٹیشنز پر حملوں کی روک تھام پر توجہ