دنیا کے بڑے اور ترقی یافتہ شہروں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس میں لاتعداد لائبریریاں ہوتی ہیں اور کتابوں کی دکانیں اور پھولوں کی دکانیں ہر قدم پر ہوتی ہیں ۔ پشاور شہر ایک قدیم شہر ہے ،اس کی ایک تاریخ ہے یہ شہر اپنے ایک الگ ثقافت کا حامل ہے ۔صدیوں پہلے جب یہ گندھارا تہذیب کا مرکز تھا لوگ ہزاروں میل دور سے سفر کرکے یہاں سیکھنے آتے تھے ۔اب تک چینی بدھ مت کی کتابوں میں اس شہر کی عظمت اور علمی ثروت کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ اب اس شہر میں کتاب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔ کسی زمانے میں قصہ خوانی بازار اور خیبر بازار لوگ کتابیں خریدنے جاتے تھے مگر وہاں موجود کتابوں کی دکانیں اب سٹیشنری فروخت کررہی ہیں یا ان میں کوئی دوسرا کاروبار دیکھنے کو ملتا ہے ۔صدر جو پشاور شہر کا جدید کاروباری مرکز تھا اس میں بھی کتابوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں مگر اب ان دکانوں میں گارمنٹس فروخت ہورہے ہیں ۔ پشاور کے مقابلے میں لاہور میں اردو بازار ہے اور لاہور شہر کے ہر حصے میں کتابوں کی دکانیں موجود ہیں ۔ پشاور شہر جہاں اس وقت بارہ یونیورسٹیاں ہیں وہاں کتابوں کا نہ ملنا ایک المیہ ہے ۔ پشاور یونیورسٹی کے کیمپس پر بھی نوٹس اور گائیڈز کے علاوہ کوئی کتاب دستیاب نہیں ہے ۔ کتابوں سے یہ عدم دلچسپی ہماری ترقی اور ذہنی بلوغت کا پتہ دیتی ہے ۔ ہماری ترجیحات کا اس سے تعین ہوتا ہے ۔ اس لیے کہ علم تجربہ اور عقل سلیم کتابوں کے بغیر حاصل ہی نہیں ہوسکتا ۔ حکومتی سطح پر بھی اس سلسلے میں کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہورہی ۔سماج کا ڈھانچہ ایک دن میں تعمیر نہیں ہوتا اور نہ ہی ایک دن میں خراب ہوتا ہے ۔ اس کی تعمیر میں بھی صدیاں درکار ہوتی ہیں او ر اس کی خرابی کے لیے بھی برسوں کی شکست و ریخت اورو سائل درکار ہوتے ہیں ۔ افغان نام نہاد جنگ کے گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ نے ہم سے جہاں بہت کچھ چھینا ہے وہاں ہمیں علم اور کتاب سے بھی دور کردیا ہے ۔ ہمارے تعلیم کا نام چند گھسے پٹے چیزوں کو رٹنا رکھ دیا گیا ہے اس کی وجہ سے استاد کو بھی کتاب کی ضرورت نہیں پڑتی اور شاگرد تو اس کو ایک اضافی بوجھ سمجھتا ہے ۔ جس معاشرے میں سمجھنے کے بجائے تمام توجہ رٹنے پر دی جائے وہاں کی پروردہ نسل کتابوں کی دکانوں سے زیادہ سہولت جوتوں اور کپڑوں کی دکانیں سجانے میں محسوس کر تی ہے ۔ دنیا بھر کے کسی بھی بڑے چھوٹے ائیر پورٹ پر اتریں وہاں آپ کو درجنوں کتابوں کی دکانیں ملیں گی اور بدقسمتی دیکھیں کہ ہمارے ائیر پورٹس پر اس طرح کا کوئی انتظام نہیں ہوتا ، دنیا میں ریلوے سٹیشن ، بس سٹیشن اور ٹیکسی سٹینڈ کے احاطے میں بھی آپ کو لازمی طور پر کتابوں کی دکانیں ملیں گی ، یورپ کے لوگ دوران سفر آپ کو کتاب پڑھتے ملیں گے ۔ وہاں ایک دوسرے کو سالگرہ اور خوشی کے مواقع پر کتابیں تحفہ میں دی جاتی ہیں ۔ والدین جب کسی دوسرے شہر جاتے ہیں تو بچوں کے لیے کتابیںلے کر آتے ہیں ۔ ہر گھر میں ایک چھوٹی سی لائبریری موجود ہوتی ہے ۔لوگو ں کے ڈرائنگ رومز میں آپ کو کتابیں ملتی ہیں ۔ آپ خود فکر کریں کہ کیا یہ سب کچھ ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے ۔کتاب کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے یہ سوال جب اٹھارہویں صدی کے فرانس میں اٹھایا گیا تو والٹیئر نے اس کا جواب دیا تھا کہ دنیا میں پچانوے فیصد آدمی بستے ہیں جو جانوروں سے مماثل زندگی گزارتے ہیں ، پانچ فیصد انسان بھی بستے ہیں جو سوچتے ہیں ، فکر کرتے ہیں ، لکھتے ہیں ۔ان انسانوں کے خیالات ، تنقیدی شعور اور بلند فکر کو کتابیں نسلوں کے لیے محفوظ کرلیتی ہیں ۔ اس لیے کتاب آپ کی تہذیبی لاشعور اور لمحہ موجود کی سچائی کا واحد کا ذریعہ ہیں جن کو پڑھ کر آپ آدمی سے انسان تک کا سفر کرتے ہیں ۔لانجائنس نے آج سے دو ہزار برس پہلے کہا تھا کہ کتابیں آپ کو ترفع بخشتی ہیں ۔ یعنی آپ کو مصنف کے ذہنی اور علمی سطح کے برابر لے کر آتی ہیں ۔ اس لیے کتابوں کا کسی شہر میں دستیاب ہونا اور اس کے شہریوں کا صاحب مطالعہ ہونا بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ جس شہر میں سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ طالب علم کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پڑھتے ہوں اور ان کو پڑھانے والوں کی تعداد بھی بیس ہزار سے زیادہ ہو وہاں اگر کتابوں کی دکانیں نہیں ہیں اور جو ایک دو نام نہاد دکانیں رہ گئی ہیں وہ بھی ختم ہورہی ہوں تو سمجھ لیں کہ ہم زوال کے انتہائی نچلے درجے پر آچکے ہیں۔ حکومت اگر ہوش کے ناخن لے اور نصاب اور تدریس کے طریقہ کار کو بدل کر طلبا اور اساتذہ کو کتاب بینی کی طرف راغب کرے تو ہم اس زوال سے بچ سکتے ہیں ۔ورنہ چند برسوں میں کتاب سے دور یہ بچے کسی بھی صورت انسان نہیں بن پائیں گے ۔یہ صرف آدمی بنیں گے اور آدمیوں میں بھی ان کا درجہ پستی والا ہوگا ۔ تعلیم ترقی لاتی ہے اور کتاب ذہنوں کو ترقی کے لیے تیار کرتی ہے ۔ ہمارے صوبے کے ہزاروں سکولوں میں کوئی لائبریری نہیں ہے ۔ سکولوں اور کالجوں میں اس طرف کسی حکومت نے دھیان نہیں دیا اب تو یونیورسٹیوں کا یہ حال ہے کہ وہاں بھی جو مضامین پڑھائے جارہے ہیں ان کی کتابیں بھی مفقود ہیں ۔ یونیورسٹیوں کے طالب علم بھی نوٹس اور گائیڈز کے سہارے اور بھروسے پر امتحان پاس کرتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں سیمنٹ کے عمارتیں بنانے کو ترقی کہا جاتا ہے ۔ جبکہ دنیا میں علم و ہنر میں کمال حاصل کرنے کو ترقی کہا جاتا ہے ۔ اور یہ ترقی کتاب کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے ۔ ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرزبھی نوٹس پڑھ اور رٹ کر ڈاکٹر اور انجینئر بن رہے ہیں ۔ جس کا نتیجہ معاشرے میں نکل کردیکھیں آپ کو ہر طرف نظر آئے گا ۔ دنیا کے تمام تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو روزانہ کی بنیاد پر ریڈنگ میٹریل دیا جاتا ہے جو کتابوں اور تحقیقی مجلوں کی شکل میں ہوتا ہے ۔ ہر طالب علم کو ہر ہفتے لازماً ہزار صفحے سے زیادہ پڑھنے ہوتے ہیں اس کے بغیروہ کسی بھی کلاس روم میں نہیں جاسکتا اور ہمارے ملک میںطالب علم چار برسوں میں بھی سو صفحات بھی نہیں پڑھتا ۔ہم تعلیم نہیں دے رہے ڈگریاں بانٹ رہے ہیں ۔ ہم تفہیم کو گناہ سمجھتے ہیں اور رٹے کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں ۔جب تک اس کلچر کو ہم تبدیل نہیں کریں گے اور ہمارے اردگرد کتابوں کی دکانیں ، اسٹالز ، اور ہمارے گھروں میں بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں نہیں ہوں گی ۔ہم دنیا میں مہذب نہیں کہلاسکتے ۔ہم دن بدن دنیا سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اگر یہی صورتحا ل رہی تو ہم ایک دن دنیا تک رسائی کے تمام راستے بند کردیں گے ۔دنیا اور زندگی تک رسائی کا راستہ آج بھی کتاب ہی ہے ۔حکومت کوشش کرے کہ کتابیں شہروں میں آئیں اور والدین کی کوشش ہو کہ یہ کتابیں ان کے بچوں کے ہاتھو ں میں ہوں تو ہمارے معاشرے کا مزاج بد ل جائے گا ۔ اور ہم ترقی کے راستے پر چل پڑیں گے ۔ ورنہ گزشتہ چار دہائیوں سے ہم کلاشنکوف ، جہاد، منشیات، سمگلنگ اور لوٹ کھسوٹ کے سوا کرکیا رہے ہیں ؟