”آج کا نوجوان اور سہانے سپنے”

جوانی میں انسان باپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتا رہتا ہے،جسے باپ کو ہمارے مسائل ،تکلیفوں یا ضرورتوں کا احساس ہی نہیں،یہ نئے دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتا۔کھبی کھبی اپنے باپ کا موازنہ بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں،مثلاً اتنی محنت ہمارے باپ نے کی ہوتی،بچت کی ہوتی،کچھ بنایا ہوتا تو آج ہم بھی فلاں کی طرح عالیشان گھر،گاڑی میں گھوم رہے ہوتے۔کہاں ہو، کب آؤ گے ، زیادہ دیر نہ کرنا جیسے سوالات انتہائی فضول اور فالتو سے لگتے ہیں۔یاد رہے! اولاد کیلئے آئیڈیل بھی ان کا باپ ہی ہوتا ہے لیکن کچھ باتیں جوانی میں سمجھ نہیں آتیں اس لئے کہ ہمارے سامنے وقت کی ضرورت ہوتی ہے،دنیا سے مقابلے کا بھوت سوار ہوتا ہے۔جلد سے جلد سب کچھ پانے کی جستجو میں ہم کچھ کھو بھی رہے ہوتے ہیں جس کا احساس بہت دیر سے ہوتا ہے۔ہم جیسے درمیانے طبقے کے سفید پوش لوگوں کی ہر خواہش،ہر دعا،ہر تمنا اولاد سے شروع ہوکر اولاد پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔یہ ایک چھپا میٹھا میٹھا درد ہے جو باپ اپنے ساتھ لے جاتا ہے،اولاد کیلئے بہت کچھ کرکے بھی کچھ نہ کر سکنے کی ایک خلش آخری وقت تک ایک باپ کو بے چین رکھتی ہے۔اولاد اگر باپ کے دل میں اپنے لئے محبت کو کھلی آنکھوں سے وقت پر دیکھ لے تو شاید اسے یقین ہو جائے کہ دنیا میں باپ سے زیادہ اولاد کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔سر شام کبھی کبھی کمرے کی بتی بجھا کر اس فکر کی آگ میں جلتا ہوگا کہ میں نے اپنی اولاد کیلئے بہت کم کیا؟ مگر اولاد کو باپ بہت دیر سے یاد آتا ہے۔یہ ایک عجیب احساس ہے جو وقت کے بعد اپنی اصل شکل میں ہمیں بے چین ضرور کرتا ہے۔بہت سی اولادیں، وقتی محرومیوں کا پہلا ذمہ دار اپنے باپ کو قرار دیکر ہر چیز سے بری الذمہ ہوجاتی ہیں۔وقت گزر جاتا ہے اچھا بھی برا بھی اور اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ انسان پلک جھپکتے ماضی کی کہانیوں کو اپنے اردگرد منڈلاتے دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔جب ہم خود راتوں کو جاگ جاگ کر دوسرے شہروں میں گئے بچوں پر آیت الکرسی کے دائرے پھونکتے ہیں۔جب ہم سردی میں وضو کرتے ہوئے اچانک سوچتے ہیں! بیٹا آپ کے ہاں گرم پانی آتا ہے؟حال ہی میں پیش آنیوالا ایک مجبور باپ کی کہانی جس کا بیٹا روز روز اس کیساتھ ایسے بات کر رہا تھا جیسے خود ہی سے مخاطب ہو،اور اپنے والد کو سمجھا رہا ہے کہ یہاں پورا مہینہ گدھوں کی طرح کام کرو تو پھر بڑی مشکل سے باورچی خانہ چلتا ہے میں نے بس سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے آپ بس انگوٹھا لگائیں،اس تھوڑی سی زمین کے بدلے کئی ایکڑ لیکر دے دوں گا،والد بیچارہ بار بار سمجھا رہا ہے کہ بیٹا باہر کے ملکوں میں بھی آج کل بس یہاں والا ہی حال ہے۔وہاں پڑھے لکھے لوگوں کو بڑی مشکل سے نوکریاں ملتی ہیں تو نے تو پاس بھی آٹھ جماعتیں ہی کی ہیں تجھے بھلا کون نوکری دے گا؟ بیٹے نے کہا سب جلتے ہیں،سب ڈرامے ہیں بس کسی اور کی کامیابی برداشت نہیں ہوتی ان لوگوں سے۔والد صاحب نے بار بار سمجھایا کہ تیری اور تیری بہن کی شادی کرنے کے بعد ہی بس تھوڑی بہت زمین بچی ہے،عزت سے اچھی بھلی دو وقت کی روٹی مل رہی ہے تو کیا ضرورت پڑی ہے جان جوکھوں میں ڈال کر باہر جانے کی؟ ہمیں نہیں چاہیئے تیرے ڈالر،اوپر سے تو جا بھی غیر قانونی رہا ہے۔چونکہ والد والد ہوتا ہے بار بار سمجھایا کہ بیٹا وہاں جاکر بھی تو تونے کام ہی کرنا ہے یہیں کرتا رہے پر نافرمان بیٹے نے بولا آپ صرف اپنی زمین نہ بیچنے کیلئے یہ سب کہہ رہے ہیں نا،چلیں رکھ لیں یہ زمین اپنے پاس میں کوئی اور حساب لگا کر چلا جاؤں گا۔بقول شاعر!
وہی ایک چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔
باپ بار بار سمجھا رہا تھا کہ بیٹے زمین کی کس کمبخت کو پروا ہے مجھے تو تیری فکر ہے ایسا کر تو یہ زمین بیچ لے جو پیسے ایجنٹ کو دینے ہیں اس سے یہیں پر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرلے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ تیرا دل نہیں کانپے گا ان معصوموں کو اکیلا چھوڑ کر جاتے ہوئے۔باپ نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی مگر بیٹے پر نہ تو والد کی کسی دلیل کا اثر ہوا اور نہ ہی امی کے آنسوں کا۔زمین بک گء اور وہ ایجنٹ کو طے شدہ رقم ایڈوانس دے کر یورپ کیلئے چل پڑا۔بلوچستان پہنچنے تک تو وہ خود ہی فون کرکے گھر والوں کو اپنی خیریت کی اطلاع دیتا رہا،بعد میں چند دن تک اس کی خیریت کی اطلاع ایجنٹوں کے ذریعے ملتی رہی مگر پھر یہ سلسلہ رک گیا۔اب گھر والے اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ وہ کب یورپ پہنچ کر فون کرے گا اور خیر خیریت سے پہنچ جانے کی اطلاع دے گا۔آخر کار ان کی کال آہی گئی میں خیریت سے پہنچ گیا ہوں یورپ،اپ باقی پیسے بھی دے دیں میں بعد میں فون کروں گا یہاں کال بہت مہنگی ہے،بس اتنی سی بات کرکے اس نے کال کاٹ دی۔شام کو ایجنٹ آکر باقی کی رقم بھی لے گیا ،اب سارے گھر والے اس کی دوسری کال کے انتظار میں تھے مگر انتظار انتظار ہی رہا۔ابھی یہ انتظار نہ جانے اور کتنا طویل ہوتا اگر کچھ دن بعد پولیس والے ان کی گولیوں سے چھلنی لاش لے کر گاؤں نہ پہنچتے۔جسے گھر والے یورپ میں سمجھے بیٹھے تھے وہ بیچارہ تو پاکستان کا بارڈر کراس کرنے سے پہلے ہی قتل کرکے ویرانے میں پھینک دیا گیا تھا۔اصل میں وہ بڑے پیشہ ور لوگ ہوتے ہیں ڈرا دھمکا کر ایسی کالیں کروانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔اس طرح کے کئی جوان ہیں جن کی میتیں سرد خانوں میں پڑی ہیں مگر ان کے وارثوں کا پتہ نہیں رہا۔والد تابوت سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار رو رہے تھے کہ بیٹا تجھے سمجھایا تھا ہمیں نہیں چاہیئے لاکھوں روپے مگر تو نے نہیں سنی اب دیکھ ہمارا حال،کیسے بے سہارا ہوکر رہ گئے ہیں۔یاد رہے مسلمانوں کے ملک میں روزگار کے مواقع موجود ہوتے ہوئے غیر مسلم ملک میں صرف معاش کیلئے جانا اسلام میں بھی پسندیدہ نہیں ہے البتہ اگر دارالاسلام میں مواقع نہ ہوں اور غیر مسلم ملک جاکر ایمان،دینی احکام اور اسلامی تہذیب وآداب کی حفاظت کیساتھ کمانا ممکن ہو تو اس کی اجازت ہوگی لیکن اس کیلئے غیر قانونی طریقہ اختیار کرکے اپنی عزت کو خطرے میں ڈالنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے،اس لئے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:  ادھورا کام