قومی مکالمے کی ضرورت

پختونخوا ملی عوامی پارٹی(پی کے ایم اے پی)کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی کے فلور پر ٹریژری ممبران کے لئے یہ غیر متوقع اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے گرما گرم تقریرمیں سوال کیا گیا کہ کیا وہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لئے رضامند ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں کے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر سیاسی جماعتوں سے بات چیت نہ کرنے اور فوج سے مذاکرات سے متعلق بار بار کے بیانات پر طنز کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف شاید متوقع سوچ کے ساتھ سوال کر رہے تھے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات سے انکار کردیں گے کیونکہ ان کا مضبوط نظریہ ہے کہ سیاستدان فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں۔اپوزیشن اراکین کے ڈیسک بجانے کے درمیان محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ میں مذاکرات کروں گا، میں ہر ادارے سے بات کروں گا، میں اسٹیبلشمنٹ سے بھی بات کروں گا، مگر ہم ان سے اس لئے بات نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں رہنمائی فراہم کریں۔محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ آئین کی بالادستی ہی حل ہے اور پورا ہائوس اس بات پر متفق ہے، تمام سیاسی جماعتیں بشمول پاکستان مسلم لیگ(ن)کے سربراہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں، جمہوری انتخابات کے ذریعے پارلیمنٹ حقیقی آئینی ادارہ بن سکتا ہے، ملک بحران سے نکل سکتا ہے۔اپوزیشن رہنما کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال کا ذمہ دار سیاستدان، فوج اور ہم سب ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک ساتھ بیٹھیں، ماضی کی غلطیوں کو قبول کریں اور آگے بڑھیں، ایک طرف نواز شریف سیاسی مذاکرات کی ضرورت پر دبا دے رہے ہیں ۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ بات چیت کے لئے ہمیشہ تیار ہیں، فیصلے کرنے والوں سے بات ہوگی، جمہوریت کی باتیں کرنے والے بوٹ کے آگے لیٹ گئے ہیں۔تحریک انصاف کے اسیر بانی کے بیان کو ان کی سیاسی مصلحت اور مجبوری کے تناظر میں دیکھا جائے تو محمود خان اچکزئی کے اسمبلی کے فلور پر بیان سے مختلف نہیں محمود خان اچکزئی جیسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ مقتدر سیاستدان کا بیان قومی مکالمہ کی دعوت ہے اور قومی مکالمہ میں سیاسی و غیر سیاسی فریق کاملکی استحکام اور ملک کو موجودہ حالات سے نکالنے کے لئے بات چیت وسیع تر قومی مفاد اور وقت کی اہم ضرورت ہے اس سطح کی بات چیت کئے بناء برسوں سے گنجلک مسائل سے چھٹکارا ممکن نہیں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اس طرح کاوسیع تر قومی مکالمہ ہوناچاہئے جس طرح کی وسیع ترمشاورت پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے وحشیانہ حملے اور معصوم بچوں کوخون میں نہلانے کے موقع پر قومی سیاسی قیادت اور عسکری قیادت نے ایک صفحہ پر آکر فیصلہ کیا تھا اور یہ قومی مفاد کا تقاضا بھی ہے وسیع ترمفاہمتی مکالمہ کے نتیجے میں اگر اسٹیبلشمنٹ درست سمت کی جانب مڑتی ہے اور حالات سے لگتا بھی یہی ہے کہ اب اس طرف رجحان ہے تو پھر سیاستدانوں کو باہم مل بیٹھنے میں کیا امر مانع ہے سخت سیاسی اختلافات اور پھر میثاق جمہوریت کیا ماضی قریب کی ملکی سیاست میں مثال کے طور پر موجود نہیں لیکن اس وقت ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی سیاسی دلچسپی میں کمی آگئی ہے اور وہ سب عوام کے کندھوں پر سوار ہونے کے بجائے اقتدار کی جیپ کی سواری کے خواہاں ہیںپاکستانی جمہوریت کے ڈھانچہ جاتی ڈھانچے پر پچھلے دو سالوں میں ہونے والی بے تحاشا تباہی کے باوجود، نہ تو اس کے متاثرین اور نہ ہی اس سے فائدہ اٹھانے والے ہوش کے ناخن لینے کو تیار ہیں بلکہ وہ آئینی نظام کی طرف لوٹنے کی بجائے چاہتے ہیں کہ معاملات مزید عدم استحکام اور بدامنی کی طرف بڑھتے رہیں۔ یہ پاکستانی عوام کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ سیاست اور قیادت کوئی صفر کا کھیل نہیں ہے، پھر بھی اب ان کا شمار ہوتا ہے۔ شاید یہ سیاست کی عسکریت پسندی کا ناگزیر نتیجہ ہے، لیکن ملک کو آگے بڑھنے کے لئے اس تصور کو شعوری طور پر رد کرنے کی ضرورت ہے۔پی ٹی آئی نے ایک بار پھر حکومت سے مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن)کے سربراہ نواز شریف کی جانب سے ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے آل پارٹیز کوششوں کے لئے دی گئی تجویز کے جواب میں یہ اعتراض سامنے آیا۔ پی ٹی آئی کا موقف یہ ہے کہ وہ مخلوط حکومت میں مسلم لیگ (ن)یا اس کے اتحادیوں کو جائز ہم منصب کے طور پر نہیں دیکھتی کیونکہ اس کا خیال ہے کہ وہ دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے جیتے ہیں۔ اس کے بجائے، پی ٹی آئی صرف سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے، جو کہ متضاد طور پر، اس کی مسلسل مظلومیت کے پیچھے اصل قوت کے طور پر بار بار مذمت کرتی ہے ۔لیکن اگر پی ٹی آئی مسلح افواج کے معاملے میں گزرے ہوئے حالات کو گزارنے کے لئے تیار ہے، تو وہ اپنی حریف جماعتوں کے ساتھ وہی شائستگی کیوں نہیں بڑھا سکتی، جو اپنی تمام خامیوں کے باوجود بھی پاکستانی عوام کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس کے لئے اس کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہے۔سیاست میں سمجھوتہ کی ضرورت ہوتی ہے جب تک سویلین قیادت اس کو قبول نہیں کرتی تب تک کچھ بھی بدلنے کی امید نہیں کی جاسکتی۔

مزید پڑھیں:  اختر مینگل پارلیمانی سیاست چھوڑ چلے