حرام کا پیسہ، فسادکی جڑ

وطن عزیز میں بدعنوانی کا ناسور نہایت سنگین ہے بدعنوانی کا پیسہ ظاہر ہے کوئی دیانتدار اور امانتدار ملک و قوم سے مخلص فرد یا افراد کے پاس تو نہیں جاتا بلکہ یہ رقم مفاد پرست ، بے ضمیر ، بے ایمان ، بے اصول اور چوروں کے پاس ہی جاتا ہے اس طرح کے کم ظرف اور بے ضمیر افراد کے پاس ناجائز دولت آجائے تو اس سے پورا معاشرہ کسی نہ کسی طور متاثر ہونا فطری امر ہوتا ہے اس سے طبقاتی تفریق نمودونمائش خرمستیاں اور طرح طرح کے خرابات سر اٹھاتے ہیں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بد عنوانی رشوت اور حرام کا پیسہ معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کی ماں ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہمار ا معاشرہ سنگین سے سنگین تر اور قبیح برائیوں کا شکار ہے جس ملک میں ناجائز اور حرام دولت کی بھر مار ہو وہاں معاشرتی عدم توازن ،سماجی ناہمواری ،خود غرضی ، ضمیر فروشی اور ناانصافی کا ماحول خود بخود پیدا ہو جاتا ہے آج وطن عزیز میں صورتحال یہ ہے کہ آج پاکستان میں انہی لوگوں کی اکثریت کی زندگی آسودہ اور خوشحال ہے جنہوں نے کسی بھی طریقے سے ناجائز دولت کمائی ہو یہ دولت ظاہر ہے رشوت ، کمیشن ، منشیات فروشی ، جرائم ، سمگلنگ ، ناجائز کاروبار ، ذخیرہ اندوزی اور ظلم و استحصال اور دوسروں کا حق مار کے ہی کمائی گئی ہوتی ہے ۔ جس کے باعث ملک میں دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکار اور قبضہ ہو گیا ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کا موجودہ جمہوری نظام بھی اسی بدعنوانیت پرمبنی معیشت کی مرہون منت ہے انتخابات لڑنے والے افراد بھی عام آدمی نہیں انہی طبقات کے نمائندے ہوتے ہیں عام آدمی اور کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی مخلص کارکن تو انتخاب لڑ ہی نہیں سکتا اب تو قبضہ مافیا اور لینڈ مافیا کی ہر حکومت میں اچھی خاصی نمائندگی اور سیاسی جماعتوں میں اس کا اثر و رسوخ بھی ہو گیا ہے خیبر پختونخوا میں تعلیم کی تجارت کرنے والی مافیا بھی بطور خاص طاقتور ہے یہاں لوگ انتخاب لڑ تے یا پھر رقم خرچ کرکے امیدواروں کی حمایت ہی اس لئے کرتے ہیں کہ جیتنے کے بعد اختیارات اور منصب کا استعمال کرکے لوٹ مار کی جائے اب ملک میں انتخابات نظریہ کی بنیاد پر نہیں مفادات کو مد نظر رکھ کر لڑی جاتی ہیں حالیہ انتخابات میں تو اچھے خاصے امیدواروں نے شکست کے بعد نشستیں خرید لیں اور آج وہ اسمبلی کے ممبر کہلاتے ہیں ملک میں سارا جھگڑا ہی اب اسی کا ہے جب حرام کی کمائی سے سیاست ہو اور سیٹ خریدی جائے تو نظر یاتی اور جماعتی سیاست کی جگہ مفاداتی سیاست ہی نے لینی ہوتی ہے ۔ روپے پیسے کے بل بوتے پر انتخاب جیتنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ سب انتخابات کسی پروگرام یا نظریہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ دولت کے بل بوتے پر لڑی جاتی ہیں اور آئندہ کی نشست پکی کرنے کے لئے نہ صرف گزشتہ سرمایہ کاری ہی کی واپسی ہونی چاہئے بلکہ آنے والے انتخابات میں بھی پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کے مصداق سیٹ خریدنی ہوگی اس ساری صورتحال کے باعث پاکستان میں ہر شعبے میں بدعنوانی اور عدم توازن کا دور دورہ نظر آتا ہے جس ملک میں اس طرح کا عدم توازن پیدا ہو جائے وہاں فطری طور پر مختلف طبقات خود بخودعدم توازن کا شکار بن جاتے ہیں جس سے ملکی وحدت خدانخواستہ خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔ پاکستان میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ عدم توازن کی کیفیت میں اضافہ ہو رہا ہے طبقاتی تفریق میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس کی بنیادی وجہ بدعنوانی اور ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ دولت پر کھڑی معیشت ہے اقتصادی امور کے ایک ماہر کے بقول پاکستانی معیشت کا نمایاں حصہ ناجائز وسائل سے حاصل کردہ دولت پر استوار ہے اور رئیل سٹیٹ کے شعبے میں تو 65 فیصد سرمایہ کاری ہی ناجائز دولت سے کی گئی ہوئی ہے اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہی جائیدادوں کے شعبے میں ہوتی ہے پاکستان میں جائیدادوں کی قیمتوں کی آسمان سے باتیں کرنے کی وجہ بھی یہی ہے اس کے علاوہ مہنگائی کی بھی ایک بڑی وجہ ان عناصر کی بے پناہ قوت خرید ہے المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں محنت کے بغیر دولت کمانے کا کلچر عروج پر ہے جس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی کرپشن کا زہر معاشرے کی رگوں میں اس طرح سرایت کر چکا ہے کہ اب اس کی سرجری ممکن نہیں سماجی نقطہ نظر سے بھی یہ صورتحال زہر قاتل کی سی ہے کیونکہ بدعنوانی پر مبنی معیشت نے پورا سماجی وجود اور قومی ڈھانچے کو لرزا دیا ہے غلط ہاتھوں میں دل کھول کرناجائز دولت اکٹھی ہوجائے تو اخلاقی اقدار کا خون ہونا فطری امر ہوتا ہے ایسے معاشرے میں پھر ظاہر ہے ہر فرد ہرضمیر اور ہر چیز کی قیمت لگا دی جاتی ہے جو بک گئے جن کو خریدا جا سکا وہ پھر اس معاشرے میں ضم ہو گئے اور جن کو نہ خریدا جا سکا اور وہ کھڑے رہے تو ان کی زندگی عذاب بنا دی جاتی ہے مجھے خود اپنی ملازمت کے سلسلے میں ہی اس کا تجربہ نہیں ہوا بلکہ میں جس جس سے بھی بات کرتی ہوں وہ اگر بدعنوانی ، رشوت ستانی ، رشوت اور زنا میں حصہ دار بنتے ہیں ان کی گڈی چڑھی رہتی ہے جو دامن صاف رکھنے کی سعی کریں ان کا دامن اور داڑھیاں کھینچی جاتی ہیں اور ان کو گھسیٹا جاتا ہے جس معاشرے میں اس طرح کی فضا ہو ظاہر ہے پھر وہاں محنت ، دیانتداری ، امانتداری اور فرائض منصبی کی ایماندارانہ ادائیگی کا رواج خود بخودکم سے کم ہو جاتا ہے جس کے ا ثرات حکومت اور ملک و قوم پر منتقل ہوتے ہیںاور اس کے برے نتائج سامنے آتے ہیں۔ پاکستان کے مسائل و مشکلات کا اگر ایک طائرانہ جائزہ لیا جائے تو اس کی اصل وجہ اور بنیاد بدعنوانی ہے ملک میں تعلیم ، علاج ، صحت اور یہاں تک کہ انصاف بھی بکتا اور خریدی جاتی ہے جس ریاست میں ساری معیشت و اقتصاد اس طرح کی عمارت پر کھڑی ہو اس میں تبدیلی و اصلاح کے لئے بڑی ہی جدوجہد کرنی پڑتی ہے بحیثیت قوم ہم جس طرح کی سنگین صورتحال سے دو چار ہیں اس کی تبدیلی کے لئے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے یہ صرف تحریک انصاف یا جماعت اسلامی کے بس کی بات نہیں بلکہ دیکھا جائے تو تحریک انصاف تو صرف دعویدار ہے اصل جدوجہد جماعت اسلامی ہی کی نظر آتی ہے عوام کو بھی ان سے اتفاق ہے مگر جب اقتدار دلانے کی باری آتی ہے تو عوام نظریاتی اور دیانتدارانہ سیاست کو چھوڑ کر بدعنوان عناصر کے جھانسے میں آتے ہیں اور پھر زندگی بھر اس گھن چکر سے نکل نہیں پاتے اور بس۔

مزید پڑھیں:  اختر مینگل پارلیمانی سیاست چھوڑ چلے