ہمارے ایک دوست اس بات پر اکثر افسوس کرنے لگتے ہیں کہ معاشرتی اقدار کی تبدیلیوں نے لوگوں میں کئی منفی رحجانات اور عامیانہ رویے پیدا کیے ہیں ، جس میں نفرت انگیز گفتگو اور آئے روز من گھڑت باتوں سے ہیجان پیدا کرنا بھی شامل ہے ۔ اس حوالے سے وہ سیاسی رہنماؤں کے متنازع بیانات اور الیکٹرانک میڈیا پر صبح و شام بے معنی اور تضحیک آمیز مکالمہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں ۔ اگرچہ آئین نے سب کو اظہار رائے کی آزادی دی ہے لیکن اس آزادی کی کچھ حدیں بھی مقرر ہیں اور اس کے غلط استعمال پر سزائیں بھی ہیں ۔ جہاں تک اہل سیاست کا تعلق ہے توان کے درمیان سیاسی اعتبار سے نقطہ چینی اور اپنی پارٹی کے حق میں مدلل رائے زنی بالکل درست امر ہے لیکن اب یہ معمول بن چکا ہے کہ ہر سیاسی رہنما اور کارکن آزادی ٔ اظہار کی آڑ میں مخالف کی ذات اور اس کے اہل خانہ کو نشانہ بناتے ہیں ۔ برسر اقتدار جماعت کے کسی وزیر کا ذاتی بیان اور کسی کے خلاف منفی رائے اس کی اپنی سوچ ہے جس کے لیے حکومت کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ ہاں اگر یہ بیان کسی سرکاری پالیسی کے معاملہ میں ہو تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ڈالنی چاہیے ۔ اس معاملہ میں اول توپکڑ ہوتی نہیں ، اگر ہو بھی تو تردید اورمعافی سے معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے ۔ آزادی اظہارکا معیار بھی بڑانازک ہے ، آپ یہ کیسے طے کریں گے کہ فلاں شخص نے جو کچھ لکھا یا کہا ہے تو اس سے نفرت یا فساد پھیلنا ممکن ہے یا نہیں ؟ کسی کے بیان پر کوئی ہنگامہ کھڑا ہو جائے ، قتل و غارت تک بات چلی جائے اور عوامی جلوس نکل آئیں تو کیا تب اُس کو قصور وار مانا جائے گا ؟ اس حوالے سے جیسا قانون موجود ہے ، اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ قانون کی نئی سختیاں نافذ کرنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اہل سیاست اور سیاسی جماعتوں کے نمائندے از خود تحمل اور برد باری کا مظاہرہ کریں ۔ پارٹی ان کی تربیت کرے ، روایات اور اقدار میں رہنا سکھائے لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پارٹی رہنما جو بر سر اقتدار آ کر اعلیٰ حکومتی مناصب پر فائز ہوتے ہیں ، وہ بھی الٹی سیدھی باتیں کرنے سے باز نہیں آتے ۔ ان سے توقع بھی نہیں کہ کسی کے پاس کوئی سیاسی فلسفہ ، نظریہ اور جمہوری فکر نہیں ، انہیں بس ایک ہی چیز دکھائی پڑتی ہے اور وہ ہے اقتدار ۔ اس سوچ کے علاوہ سبھی جماعتیں کسی سیاسی نظریہ سے خالی دامن ہیں ، ان کے پاس ذات ، مذہب ، زبان ، صوبائیت اور نام نہاد پروگرام کا بیانیہ بطور خالی جھنجھنا ہوتا ہے جسے موقع کی مناسبت سے ہلاتے ہیں اور انتخابات میں ووٹ بٹورتے ہیں ۔
ہمارے ہاں جب سے ٹی وی چینل مقبول ہوئے ہیں’ اہم اخبارات کی اشاعت میں کمی آئی ہے کہ ناظرین کی تعداد قارئین سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ سکرین پر دکھائے جانے والے مناظر اور پیش کی جانے والی بحث و تکرار جس میں بس نفرت ہی انڈیلی جاتی ہے اور ناظرین کی ایک اکثریت کو فوراً متاثر کرتی ہے ۔ چند مستثنیات کو چھوڑ کر ” ٹاک شوز ” میں لفظی دنگل کے علاوہ کیا ہوتا ہے ؟ ان میں غیر جانبدار دانشور اور ماہرین حصہ لینا پسند نہیں کرتے ہیں۔ یہ چینل والے زیادہ تر بڑ بولے قسم کی سطحی بات کرنے والوں کو بلا کر انہیں لڑانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان میں شامل سیاسی نمائندے اور مبصرین ایک دوسرے پر سنگین الزامات کے علاوہ بعض اوقات نا زیبا زبان کا استعمال بھی کرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ ساتھ میزبان جسے عرف عام میں اینکر کہا جاتا ہے ، وہ ایسے غیر ضروری موضوعات اور باتوں کو جان بوجھ کر طول دیتے ہیں جو عام ناظرین کے ذہن میں بے سمتی اورمعاشرے میںہیجان پیدا کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس قدر بے شعوری کا شکار ہو چکے ہیں کہ مُلکی و سیاسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اپنی سوچ کی بجائے انہی ٹاک شوز کے افلاطونوں کا حوالہ دیتے ہیں ۔ کوئی سا نتیجہ نکالے بغیر ان کی بات بھی گالم گلوچ پہ ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ عام ناظرین کو جانے دیں ، اب تو غضب یہ ہے کہ اہل ادب اپنے لٹریری فیسٹول میں بھی انہی ٹاک شوز کے سطحی مبصرین کو مدعو کرنے لگے ہیں جبکہ امریکہ میں ایسے ٹی وی چینلوں کو ‘ ایڈ یٹ باکس ‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ اب یہ کیسی اظہارِ رائے کی آزادی ہے کہ لوگوں کو سوچنے سمجھنے اور انہیں آپس میں جوڑنے کی بجائے ایک دوسرے سے متنفر کیا جا رہا ہے ، ان ٹاک شوز کی اکھاڑے بازی اب ہر جگہ ہورہی ہے ، جسے فہم و دانش رکھنے والے سنجیدہ مزاج لوگ دیکھ کر دکھی ہوتے ہیں اور اپنا زیادہ وقت ٹی وی دیکھنے میں ضائع نہیں کرتے ۔ رائے کا اختلاف پایا جانا ایک عام اور انسانی سماج کی معمولی اور کھلی حقیقت ہے۔ انسان اپنی پیدائش کے ساتھ ہی اختلاف رائے بھی لایا ہے لیکن اس کے لیے برداشت اور مباحثے کا ماحول ہونا چاہیے۔ عدالتوں کی مدد سے اظہار ِ آزادی کی آڑ میں بد زبانی کو روکنے کی نسبت بہتر یہی ہے کہ ہمارامیڈیا اور سیاسی جماعتیں اپنے آپ سے عزم کر لیں تو وہ اپنے سمجھ بوجھ رکھنے والے نمائندوں اور مبصرین کے ذریعے مکالمہ کو با معنی اور ماحول کوبہتر بنا سکتے ہیں ۔ اور اس مکالمہ میں شرکاء کی کوشش بھی یہی ہونی چاہیے کہ اختلاف رائے کسی مخاصمت میں نہ بدل جائے۔
Load/Hide Comments