ملک کی تاریخ پرغیر جانبدارانہ نظر ڈالی جائے تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی چند برس کے علاوہ باقی کی مدت میں معاشرے میں جو خرابیاں درآئیںان میں احتساب کے نظام پر کبھی حقیقی معنوں اور غیر جانبداری کے ساتھ عمل درآمد نہیں کیا گیا، اور نتیجتاًتقریباً ہر شعبہ زندگی میں کرپشن اور بدعنوانیاں درآتی چلی گئیں اور آج ہم اقوام و ملل میں ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں قدم قدم پر ہمیں دنیا کے مقابلے میں ایمانداری کے ثبوت فراہم کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے ، بہ استسنائے چند ، کیا ادارے اور کیا انفرادی طور پر خودکو دیانتداری کے عالمی ا صولوں کے عین مطابق قرار دلوانے میں جتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ کئی سوالات کو جنم دینے کا باعث ہیں ، ماضی میں جتنی بھی حکومتی برسر اقتدار آئیں وہ صرف اور صرف اپنے مخالفین اور سابقہ حکومتوں کے بارے میں احتساب کے نہ صرف نعرے بلند کرتی رہیں بلکہ ان کے بارے میں انکوائریاں کرکے خود کو منزہ عن الخط کے کلئے کے تحت معاملات کو آگے بڑھاتی رہیں اور اکثر ان تمام اقدامات کے نتائج ڈنگ ٹپائو پالیسیوں کا شکار ہو کر کسی حتمی نتیجے کا باعث کبھی نہ بن سکیں جن کی وجہ سے آج ہم جن حالات سے دو چار ہیں وہ سب کے سامنے ہے ، قرضے لے لے کر جس طرح ہم نے پاکستان کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے ہیں اور ان سے چھٹکارہ پانے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی ، یہ ایک عبرتناک صورتحال ہے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ایک ایسے ملک میں جسے قدرت نے نہایت فیاضی سے پانی کے وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے اور جہاں پانی کے انہی وسائل کو اگر درست طور پر استعمال میں لایاجاتا تو صرف اسی ایک شعبے سے نہ صرف ہم اربوں یونٹ سستی ترین بجلی پیدا کرکے اپنی ضروریات پوری کرتے بلکہ لاکھوں یونٹ بجلی فروخت کرکے کھربوں ڈالر بھی کماتے اور اپنے ہاں انڈسٹری کو فروغ دیتے ہوئے اپنی برآمدات میں بتدریج اضافہ کرکے عالمی سطح پر مسابقت میں سرخرو ہوتے مگر ہماری بدباطنی اور بدنیتیوں کی وجہ سے الٹا ہم نے دیگر ذرائع سے مہنگی ترین بجلی کے منصوبے اپنی معیشت پر تھوپ کر اپنا مستقبل آئی پی پیز کے ہاتھوں یرغمال بنالیا ہے اور آج صرف اسی ایک شعبے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ انتہائی مشکلات کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے ، جبکہ اس سے جان چھڑانے کوئی بھی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوپا رہی ، اسی طرح دیگر شعبوں میں اپنی غلط پالیسیوں کی بدولت ہم ہر طرف سے اقتصادی طور پر تباہی اور بربادی کے نشانے پر آچکے ہیں ان تمام ناکردینوں کی وجہ سے صرف اور صرف یہی ہے کہ ہم نے کبھی احتساب کے نظام کو مضبوط ہونے دینا تو درکنار ، الٹا اس کی شکست وریخت میں ذاتی مفادات کو آڑے آنے دیا ، اور انفرادی یا گروہی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے پاکستان کے عوام کی بربادی کے ”سودے” کرنے کو ترجیح دی ، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے گزشتہ روز کور کمانڈرز کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے ملک میں احتساب کے کڑے اور غیر جانبدارانہ نظام کے تحت اقدام اٹھانے کاجو پالیسی بیان دیا ہے اس پر عمل درآمد سے ہی ملک کے حالات میں مثبت تبدیلی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں ، آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق آرمی چیف نے کور کمانڈر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے ، اس کے ہر فرد کی پیشہ ورانہ مہارت ، وفاداری صرف ریاست اور افواج پاکستان کے ساتھ ہے ، آرمی چیف نے جس تناظر میں ملک میں سخت اور غیر جانبدارانہ احتساب کی بات کرتے ہوئے کسی بھی فرد کو احتساب سے مستثنیٰ قرار نہ دینے کے اصول پر زور دیا ہے اس کو سمجھنے میں زیادہ مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ، یقینا گزشتہ چند ہفتوں کے دوران افواج پاکستان نے بہ حیثیت ادارہ خود احتسابی کے حوالے سے جو قدم اٹھائے ہیں اور ماضی میں جن کرداروں کی منفی سرگرمیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے انہیں احتساب کے کڑے شکنجے میں کسنے کے حوالے سے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ کوئی پوشیدہ امر نہیں ہے ، اور اسی تناظر میں کچھ اہم عسکری شخصیات کے خلاف ادارے ہی کے اصول و ضبواط کے دائرے میں رہتے ہوئے جو کارروائی کی ہے جو چند روز یا چند ہفتوں میں اپنے منطقی انجام تک پہنچنے کے حوالے میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی ہو رہی ہیں ، ان پر بعض حلقے ”چیں بہ جبیں” بھی ہیں کیونکہ ان کے ڈانڈے سول معاشرے کے بعض کردار وں تک پہنچ رہے ہیں اور مشوش حلقوں کو خوف لاحق ہے کہ احتساب کا یہ شکنجہ بعض سول کرداروں کو بھی اپنی سخت گرفت میں لے سکتا ہے ، جبکہ ان حلقوں کا یہ خوف یاتشویش بلاوجہ ہے اس لئے کہ جب تک معاشرے کے ہر طبقے کو بلا تخصیص احتساب کے عمل سے نہیں گزارا جائے گا ملک میں حالات درست سمت اختیار نہیں کر سکتے ، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اور احتساب کے عمل سے گزر کر ہی ہم اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکتے ہیں اسی میں ملک کی بقاء کا راز ہے۔