مسئلہ بلوچستان اور حل

وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان کی خصوصی صورتحال کے تناظر میں سکیورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات کے تحت کابینہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ1997میں ترمیم کی منظوری دے دی، ایکٹ میں ترمیم کے لئے قانون سازی کی جائے گی۔ وفاقی کابینہ نے ترمیم کی منظوری سمری سرکولیشن کے ذریعے حاصل کی۔اس بارے دو رائے نہیں کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے حالیہ دنوں میں بلوچستان کے طول و عرض میں جس طرح کے واقعات پیش آئے اس سے حد درجہ تشویشناک صورتحال کی نشاندہی ہوتی ہے اس طرح کے خصوصی حالات کے تناظر میں خصوصی اختیارات اور انتظامات کی ضرورت سے بھی انکار ممکن نہیںلیکن اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ بلوچستان کی صورتحال میں نفاذ قانون کے ذمہ دار اداروں سے شکایات کے باعث ان کی اپنی حیثیت ایک ایسے فریق کی ہو گئی ہے جس کے حوالے سے بلوچستان کی سڑکوں سے لے کر اسلام آباد کے شاہراہوں تک چیخ چیخ کر اور دھرنا دے کر تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے اور ان کی موجودگی اور اقدامات کو مسئلے کا باعث ہونے کا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کچھ کارروائیاں بھی شاید ایسی ضرور ہوئی ہوں گی جس کا حوالہ سڑکوں پر نکلے افراد کی جانب سے نہیں بلکہ قومی اسمبلی کی نشست سے استعفے کے وقت اخترمینگل کی جانب سے دیا گیا اس ضمن میں سنجیدگی کے مظاہرے اور تحفظات دور کرنے کی سعی کے ساتھ ہی خصوصی اختیارات کے استعمال کی ضرورت ہو گی تاکہ شکایات اور عوامی تحفظات کو نئی سمت نہ مل جائے اور بجائے اس کے کہ اس انتظام سے حالات میں بہتری آئے کہیں برعکس معاملہ پیش نہ آئے ایک بات بہرحال طے ہے کہ سڑکوں پر نکلے عناصر کی شکایات میں مبالغہ آرائی اور الزام تراشی اور خود کو دنیا کے سامنے مظلوم ثابت کرنے کی سعی ضرورت سے بڑھ کر ہی نظر آتی ہے امید کی جاتی ہے کہ بلوچستان کے عوام کی جانب سے اس کو سویلین قیادت کی جانب سے ایک مثبت اقدام کے طور پر لیا جائے گا۔ یہ بات بھی مثبت رہی کہ تحریک تحفظ آئین پاکستان اپوزیشن اتحاد کے اجلاس میں موجود سیاسی رہنمائوں نے بلوچستان کی صورتحال پر بحث کے لئے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کی ضرورت پر اتفاق کیا۔ اگر یہ عمل میں آتا ہے تو اسے اس صوبے کے شہریوں کی آواز کے لئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر پیش کیا جانا چاہئے۔ یہ ان کی کچھ مایوسیوں کو دور کر سکتا ہے اور ریاست کو اپنا راستہ درست کرنے کے لئے کچھ اور وقت دے سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبے میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر ریاست کی جانب سے فوری ردعمل کی ضرورت ہے۔ تاہم، جیسا کہ ماضی میں دیکھا جا چکا ہے، جب تک کہ ان کے ردعمل کو احتیاط سے جائزہ نہ لیا جائے یہ بہت بڑے ہنگامے کا سبب بن سکتے ہیں۔ وہ پالیسیاں جنہوں نے بلوچستان کے عوام میں ناراضگی اور بے اطمینانی کو پروان چڑھانے کا موقع دیا انہیں اب چھوڑ دینا چاہئے۔ پاکستان اپنی کسی نوجوان آبادی کے ناراض اور منحرف ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کے شہریوں کا ایک طبقہ اس کی صلاحیتوں کو محسوس کرنے سے باز رہے۔ ریاست کو اس بات کو تسلیم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگرچہ صوبے کو بے رحمی سے نشانہ بنانے والوں کے خلاف متحرک کارروائی ضروری ہے، لیکن سول اور سیکورٹی قیادت کو بلوچستان کے سوال پر گہرائی سے غور کرنا چاہئے اور ان عوامل کی نشاندہی کرنی چاہئے جنہوں نے بلوچ اور ریاست کے درمیان کشیدگی کو بڑھایا ہے ۔ بلوچستان کے مسائل دوہرے اور پیچیدہ ہیں جن کے حل کے لئے جہاں ایک جانب طاقت کے استعمال کی ضرورت ہے وہاں دوسری جانب حکومت اور ریاست کو بلوچوں کے مسائل اور ان حالات کے پس پردہ عوامل کا بھی غیر جذباتی انداز میں جائزہ لے کر اصلاح احوال کی ٹھوس ابتداء بھی کرنی ہو گی۔بلوچستان کے خصوصی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ ان کے حل کے لئے صرف اس طرح کے اقدامات شاید کافی نہ ہوں لیکن بہرحال ان کی ضرورت بھی ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ شاید ہی بچا ہو البتہ اس کے ساتھ ساتھ وہاں کے حالات کو معمول پر لانے اور ناقدین و مخالفین کو سیاسی اور معاشرتی طور پر جواب کا تقاضا ہے کہ وہاں کی سیاسی قیادت کو ا عتماد میں لیا جائے اور انہی کے ذریعے اور مشاورت سے حالات کو معمول پر لانے کی سعی کی جائے تاکہ طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ نرمی سے بھی اصلاح اور مسئلے کے حل کی احسن سعی بھی ساتھ ساتھ ہو وہاںکے حالات کی نتیجہ خیز کامیابی کا دارو مدار ہر دو طریقے اختیار کرنے پر ہی ہو گا توقع کی جانی چاہئے کہ ہر طریقہ کار اختیار کرنے کے اسباب و عوامل اور نتائج و مضمرات کا پوری طرح جائزہ لیا جائے گااس امر کی بطور خاص احتیاط کی ضرورت ہو گی کہ ایسے اقدامات جس کی مزاحمت اور مزید بگاڑ کی صورت اختیار نہ ہوں اس سے بچنے کے لئے احتیاط کا دامن تھامنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  فکری عدم برداشت اور پاکستان