ویب ڈیسک: بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور جنرل فیض کیخلاف کیسز میں ثبوت اکھٹے کرنے کا دعویٰ کیا جانے لگا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق عمران خان کے خلاف 9 مئی اور جنرل فیض حمید کیس کے حوالے سے فوجداری شواہد جمع کرنے کا دعویٰ کیا جانے لگا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ابھی تک بانی پی ٹی آئی کو آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کیلئے فوجی حکام کے حوالے کرنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔
عمران خان کیخلاف الزامات کی نوعیت کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ کیس آرمی ایکٹ کے تحت فوجی ٹرائل کے دائرے میں آتا ہے لیکن عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا کیس فی الحال سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
ذرائع کے مطابق نگران حکومت کے دوران 9 مئی کے حوالے سے تیار کردہ رپورٹ کے مطابق کمیٹی کو دکھائے گئے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس منصوبہ بندی میں پارٹی کے کئی رہنما ملوث تھے۔
رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اب تک کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ 34 افراد پرتشدد سٹریٹ پاور کی حکمت عملی کے ماسٹر مائنڈ تھے جبکہ 52 افراد نے تفصیلی منصوبہ بندی میں حصہ لیا اور 185 افراد نے اسے عملی جامہ پہنایا۔
اس حوالے سے جاری ہونیوالی تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عمران خان کے مطالبات کو پورا کرنے کیلئے نہ صرف فوج پر سیاسی معاہدے کیلئے دباؤ ڈالنا ایک منظم اور خطرناک حکمت عملی تھی بلکہ مسلح افواج کے اندر سے تحریک انصاف کے حق میں بغاوت کو ہوا دینے کی کوشش تھی۔
عمران خان اور جنرل فیض کے درمیان ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کسی تعلق خصوصا 9 مئی کے حوالے سے اب تک تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔
ذریعے کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے حملوں میں جنرل فیض کے کردار کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔
عمران خان کے فوجی ٹرائل کے حوالے سے عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ ایک سابق وزیراعظم اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے رہنما کا ملٹری ٹرائل عالمی توجہ مبذول کرائے گا۔
یاد رہے کہ بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور جنرل فیض کیخلاف کیسز میں ثبوت اکھٹے کرنے کا دعویٰ کیا جانے لگا ہے۔
Load/Hide Comments