وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیرنے اپنے خطاب میں انسداد ہشت گردی کے جس عزم کا اظہار کیا ہے یہ رسمی کلمات اور جملے نہیں ہونے چاہئیں جواس طرح کے مواقع پرادا کرنے کا دستور ہے بلکہ ایک مرتبہ ٹھوس اور حقیقی اقدامات کے ذریعے ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کا فریضہ انجام دیا جائے عین اسی روز خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی ایک بڑی کارروائی ملک وقوم کو وہ چیلنج ہے جس سے قوم ایک عرصے سے شکارچلی آرہی ہے عین یوم دفاع کے موقع پر مہمند میں دہشت گردوں کا چار خود کش افراد کے ساتھ حملہ ان کی نظم و فعالیت کا اظہار ہے وہ کس طرح اتنے منظم دوبارہ ہوئے اس سوال پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جانا چاہئے ۔ امر واقع یہ ہے کہ گزشتہ بیس سالوں سے ہم ان مشکلات سے گزر رہے ہیں سیکورٹی فورسز کی قربانیوں اور ان کی بہادرانہ اقدامات کاکھلے دل سے اعتراف ضرور ہے لیکن تشویش کا باعث سوال یہ ہے کہ آخر یہ عناصر پھر سر اٹھانے کے قابل کیسے ہو جاتے ہیں اور حملے کی تیاری کے ساتھ مطلوبہ اہداف تک ان کی کامیاب رسائی کیسے ہوتی ہے اکثر اوقات تعاقب کی بجائے گھر میں ان سے مڈ بھیڑ کی وجوہات کیا ہیں بہرحال یہ وقت کامیابیوں او رناکامیوں کے جائزے کا نہیں صرف ا س قدرتوجہ کی ضرورت ہے کہ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں اور دہشت گردوں کا مکمل صفایا اور دوبارہ سراٹھانے کا موقع نہ دینے کے لئے ٹھوس اقدامات کو جتنا ہوسکے نتیجہ خیز بنایا جائے تاکہ ملک کے یوم دفاع کے موقع پر دہشت گرد ہمارے دفاعی مراکز میں گھسنے کی منصوبہ بندی کے قابل ہی نہ رہیں۔