اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام انفرادی اور اجتماعی مسائل ختم ہو جائیں تو ہمیں یہ جاننا اور سمجھنا ہو گا کہ ہمیںدنیا کی زیب و زینت اور ظاہری چمک دمک نے ایسے دھوکے میں رکھا ہوا ہے کہ ہم اپنی منزل اور اصل ٹھکانے یعنی آخرت کو بھول چکے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ اسی دنیا میں رہنا ہے اور اسی کو دنیا کی محبت کہتے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو ظلم، ناانصافی، استحصال، نفرت و منافقت اپنی انتہاء پر نہ ہوتی اور نہ ہی ہم اس درجے پریشان ہوتے، دنیامیں رہتے ہوئے دنیا سے بے رغبت ہونا ایک کٹھن امر ہے۔ ایک روایت میں عبداللہ بن عمر کا ذکر ہوا ہے، آپ کے ایک بیٹے کا نام سالم بن عبداللہ تھا یعنی وہ خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کے پوتے تھے، دنیا کی جس بے رغبتی اور آخرت کی محبت کی بات میں کر رہا ہوں سالم بن عبداللہ اس کی ایک عظیم مثال ہیں، آپ ایک نہایت خوبرو،قوی اور اپنے باپ عبداللہ بن عمرکے ساتھ ساتھ اپنے دادا عمر بن خطاب سے بھی مشابہت رکھتے تھے، ایک طرف آپ کا رعب اور دبدبہ اپنے دادا کی طرح تھا تو دوسری طرف سادگی اور عاجزی و انکساری میں آپ اپنے والد کے مشابہ تھے، انتہائی سادہ خوراک کھاتے اور سادہ اور لباس پہنتے تھے، آپ ہر وقت علم کی طلب میں رہتے، آپ کے بارے میں ابن مبارک فرماتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ کا شمار مدینہ منورہ کے سات بڑے فقہاء میں ہوتا تھا اور آپ مدینہ کے دارلافتاء کے ممتاز رکن تھے، (اعلام الموقعین)، اسی طرح آپ کے بارے میں امام مالک فرماتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ کے زمانے میں کوئی شخص بھی زہد و تقویٰ اور علم وعمل میں آپ سے زیادہ صالحین کے مشابہ نہ تھا، سالم بن عبداللہ کو دنیا اور مال دنیا کی طرف کوئی رغبت نہ تھی، آپ ہمہ وقت آخرت کی نعمتوں کی طرف راغب رہتے تھے، آپ نے آخرت کی کامیابی کی امید پر دنیا سے روگردانی کرلی تھی، خلفائے بنو امیہ نے آپ کو دنیا کے مال و متاع کی بار بار لالچ دی لیکن آپ نے ہمیشہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور دنیوی مال و متاع اور لالچ کو اپنے قریب تک نہ آنے دیا، اللہ والے لوگ صرف اللہ کے رعب میں آتے ہیں، بڑے سے بڑا بادشاہ بھی ان کو مرعوب نہیں کر سکتا، اور سالم بن عبداللہ ایسے ہی اللہ والے تھے، ایک بار خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کے دور میں آپ حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، بیت اللہ کے پاس قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول تھے کہ آپ کے پاس خلیفہ سلیمان بن عبدالملک آیا تو آپ نے خلیفہ کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی بلکہ اسی طرح تلاوت قرآن میں مگن رہے حتی کہ جب آپ تلاوت قرآن سے فارغ ہوئے تو خلیفہ نے پوچھا کہ اے سالم میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتانا،آپ نے فرمایا کہ واللہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر کسی اور سے اپنی کسی ضرورت کے لئے کوئی سوال کروں، سالم بن عبداللہ جب بیت اللہ سے باہر تشریف لے آئے تو خلیفہ نے آپ سے کہا کہ اب تو آپ بیت اللہ میں کھڑے نہیں ہیں، اب بتا دیں اگر آپ کی کوئی ضرورت ہو تو، اس پر آپ نے فرمایا کہ کہ خلیفہ آپ میری کون سی ضرورت پوری کر سکتے ہیں، دنیا کی یا پھر آخرت کی، اس پر خلیفہ کچھ سوچ میں پڑ گئے اور پھر کہا کہ دنیا کی ضرورت، اس پر سالم نے کیا ہی خوب صو رت جواب دیا کہ جو دنیا کا مالک ہے میں تو اس سے بھی دنیا کی ضروریات نہیں مانگتااور جو دنیا کا مالک ہی نہیں ہے میں اس کے آگے کیوں کر ہاتھ پھیلاؤں گا،اس پر خلیفہ شرمندہ ہوا اور سلام کہہ کر چلا گیا، خلیفہ آپ کو نہ تو دنیا کی طرف مائل کر سکا اور نہ دنیا کے مال و متاع کی طرف بلکہ جاتے جاتے یہ بھی کہہ گیا کہ آل عمر کا زہد وتقویٰ نہ صرف قابل ذکر ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے، (طبقات ابن سعد)، اسی طرح سالم اپنے باپ عبداللہ بن عمر کی طرح بہادر تھے، صرف وہی کام کرتے جس کی شریعت مطہرہ نے اجازت دی ہوتی، ایک مرتبہ حجاج بن یوسف نے سالم بن عبداللہ کو حکم دیا کہ وہ ایک آدمی کو تلوار کے وار سے قتل کر دیں تو آپ نے فرمایا کہ میں ایسے شخص کو قتل نہیں کرسکتا جو مسلمان ہو اور فجر کی نماز بھی ادا کرتا ہوکیوں کہ آپ کا فرمان ہے کہ جس نے فجر کی نماز ادا کی تووہ اللہ کی حفاظت میں ہے، لہذا جو شخص اللہ کی حفاظت میں داخل ہو چکا ہو تو سالم بن عبداللہ اسے کیسے قتل کر سکتا ہے، آپ نے حجاج بن یوسف کے اس خلاف شرع حکم کو ماننے سے انکار کردیا اور وہی کیا جو شریعت مطہرہ کا حکم تھا، حجاج بن یوسف یہ سن کر بہت زیادہ سیخ پا ہوا مگر آپ نے اس کے غصے کو کوئی اہمیت نہ دی اور حق پر بہادری کے ساتھ قائم رہے،(صورمن حیاة التابعین )، قارئین کرام اگر یہ ایک بات ہماری سمجھ میں آجائے کہ ہمارا قیام اس دنیا میں بہت ہی مختصر ہے اور ہمارا اصل ٹھکانہ کوئی اور ہے تو ہمارے سارے مسائل ختم ہو جائیں، ہماری ساری پریشانیاں دو ر ہوجائیں، ہماری خود غرضی اور لالچ ختم ہو جائے، آج ہر انسان مانگنے والا اور جمع کرنے والا ہے، جب یہ سمجھ آجائے گی کہ ہم نے یہ سب یہیں چھوڑ کر جانا ہے اور یہ ہمارے کسی کام نہیں آئے گا بلکہ ہم اس سب کا حساب دینا پڑے گا تو سب لینے والے نہیں بلکہ دینے والے بن جائیں گے، ہماری دشمنیاں اور نفرتیں سب محبتوں میں تبدیل ہو جائیں گی، باہمی احترام پیدا ہو گا، ہمارے اندر سے تکبر ختم ہو گا اور اس کی جگہ عاجزی آجائے گی اور میرے نزدیک دنیا کی جو سب سے بڑی نعمت ہمیں ملے گی وہ سکون اور اطمینان ہو گا، اپنے اندر اور باہر جھانک کر دیکھ لیں کتنی بے چینی، بے سکونی اور بے قراری ہے، دنیا ابدی اور ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہ تو فانی ہے، دار الفناء ہے اصل تو دارلبقاء ہے، دنیا تو صرف ایک گزرگاہ ہے جس سے گزرتے ہوئے اپنے اصل گھر تو جانا ہے، اکبر الہ آبادی نے اس کی کیا خوب عکاسی فرمائی ہے،
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
Load/Hide Comments