ایم ایم اے کے دور میں جب پہلی بار پشاور ہائی کورٹ نے سورے پل کے سنگم پر جہاں ایک جانب صوبائی اسمبلی کی حدود دوسڑکوں یعنی خیبر رورڈ اور ہائی کورٹ سے صدر آنے جانے والی روڈ پر آکر ملتی ہیں اور جہاں اوپر مفتی محمود فلائی اوور بھی گزرتا ہے جبکہ تیسری جانب ریڈیو پاکستان کی بغلی سڑک اور چاغی کی یادگار ہوا کرتی تھی(اب جلا کر خاکستر کردی گئی ہے ساتھ ہی ریڈیو سٹیشن کو بھی برباد کر کے نو مئی ”رچائی” گئی) اس سہ رستے پر اجتماعات ، احتجاجی مظاہروں وغیرہ پر پابندی لگا دی گئی تھی مگر اس حکم کی پہلی بار دھجیاں اڑانے کا سہرا ”علمائے کرام” ہی کے ایک احتجاج سے مذہبی جماعتوں نے اپنے سر باندھ لیا تھا اس کے بعد تو معاملہ ”چل سو چل” والا ہوا اور جس کا جب جی چاہے اس سہ رستے پر آکر پورے شہر کے ٹریفک کو ”نظام سقہ” میں تبدیل کرتے ہوئے اپنے ہی ”چمڑے کے سکے” چلانا شروع کر دیتا ہے ۔ تب ے اب تک (مہ و سال کا تعین آپ خود کر لیں) ہم نے نہ جانے کتنی بار اپنے کالموں میں پشاور ہائی کورٹ کی توجہ اس جانب دلانے کے علاوہ صوبائی حکومتوں ( مختلف ادوار) سے بھی گزارش کی ہے کہ اس بدنصیب شہر میں احتجاج کے لئے کوئی خاص مقام مقرر کرکے جملہ احتجاج کرنے والے طبقات کو سختی سے ہدایت کی جائے کہ مجوزہ (اگر حکومت مہربانی فرما کر مقرر کرے تو) مقام کے علاوہ کہیں بھی احتجاج کرکے شہریوں کو مشکلات سے دو چار کرنے والوں کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔ مگر اس حوالے سے ہر قسم کے عوامی احتجاج اور ہم ایسے قلم گھسیٹئے کی درخواستوں کو نظر انداز کرنا ”صاحب بہادروں” کا جیسے وتیرہ بن گیا ہے اس لئے اب کبھی کبھار کسی احتجاج کی نحیف و نزار سی آواز اٹھی بھی جائے تو کون پوچھتا ہے کہ بقول ہمدم دیرینہ اور طرحدار قلم کار یوسف عزیز زاہد
بے نطق ہوگیا ہے ہر آواز کا بدن
اک بدنصیب شہر نے گوہاٹی بیچ دی
اس حوالے سے گزشتہ روز جب ایک اور ”زور آور طبقے”نے ایک بار پھر خیبر روڈ پراپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا تو شہر کی تمام شاہراہیں بند ہونے سے عوام جس طرح رل گئے تھے اور گھنٹوں ٹریفک جام رہا تو شہریوں نے خواب غفلت سے بیدار ہو کر ایک بار پھر پشاور ہائی کورٹ سے اپیل کی کہ شہر کی مرکزی سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے بند کرنے کا حکم صادر کر دیا جائے ، اگرچہ ہمیں کچھ کچھ یاد آتا ہے کہ اس ضمن میں نہ صرف پشاور ہائیکورٹ بلکہ بعد میں صوبائی اسمبلی نے بھی محولہ مقام پر ہر طرح کے احتجاجی مظاہروں پر پابندی لگا دی تھی اورغالباً جناح پارک احتجاج کے لئے مقرربھی کی گئی تھی مگر صورتحال بدستور ویسے کے ویسی ہی ہے اور اب اکثر جب لوگ احتجاج کرتے ہیں تو محولہ سہ رستے کو بند کرنے سے حتی الامکان احتراز کرتے ہوئے کونے پر جو چھوٹی سی جگہ ہے وہاں جمع ہو جاتے ہیں یا پھر صوبائی اسمبلی کی دیوار کے پاس جھنڈے ، بینرلے کر احتجاج کرتے ہیں جبکہ ٹریفک کو نہیں چھیڑا جاتا مگر اس بات کی ضمانت کون دے سکتا ہے کہ ہر بار ایسا ہی ہوگا اور راستہ مکمل بلاک نہیں کیا جائے گا؟ جیسا کہ گزشتہ روز بلدیاتی نمائندوں نے جو اودھم مچا رکھا تھا اور پورے شہر کی ٹریفک کو معطل کرکے رکھ دیا تھا اس سے عوام پر کیا بیتی یہ اخبارات اور میڈیا کے دوسرے ذرائع پر خبروں کے وائرل ہونے سے معلوم کیا جا سکتا ہے یعنی عوام کی سوچ کے مطابق
لٹ کر ریا کے شہر میں دانائی بیچ دی
اپنی بس اک متاع تھی سچائی بیچ دی
یہ ساری باتیں اس لئے یاد آئیں اور دوہرانا پڑیں کہ کل 6ستمبر کوقومی اسمبلی نے اسلام آباد میں گزشتہ چند برس سے احتجاجی جلسوں ، جلوسوں وغیرہ وغیرہ سے عوام کو ”بہ امر مجبوری”برداشت کرنے والی مشکلات اور ان کی زندگی اجیرن کرنے والے حالات سے نمٹنے کے لئے قانون پاس کرکے بلا اجازت جلسوں پر پابندی لگاتے ہوئے انتظامیہ کی پیشگی اجازت سے یہ ساری سرگرمیاں مشروط کر دی ہیں جبکہ یہ بل سینیٹ سے پہلے یہ پاس ہو چکا تھا اور خلاف ورزی کرنے والوں کو پہلی بار تین سال جبکہ بار دیگر دس سال قید بامشقت کی سزا مقرر کردی ہے جلسوں وغیرہ کے لئے مختلف مقامات مقرر کر دیئے گئے ہیں اور یوں اسلام آباد کو ”ٹریفک فری زون” میں تبدیل کر دیاگیا ہے یاد رہے کہ اس قسم کی سرگرمیوں سے وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی فیض آباد کے نقطہ اتصال پر بھی جب جم ہائے غفیر آکر قبضہ جما لیتے تھے تو جڑواں شہروں کے عوام کی زندگی ”جامد” ہوجاتی تھی مگر اب قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس کا مستقل بندوبست کر لیا ہے اگرچہ حزب اختلاف کے رہنمائوں نے اس پر بہت شور و غوغا آرائی کی اور اسے اپنے خلاف ایک اقدام قرار دیا مگر ایسا ہم نہیں سمجھتے اس لئے کہ موجودہ حکومت کب تک برسر اقتدار رہے گی او رکل جب کبھی اقتدار سے اتر کر حزب اختلاف بن جائے گی تو اس قانون کا اطلاق اس وقت ان پر بھی ہوگا خیر وفاقی دارالحکومت میں اس قانون کے اطلاق کے کیا نتائج نکلتے ہیں ان سے قطع نظر ہم تو یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے صوبے میں بھی یہ جو سورے پل کے سنگم پر سہ رستے مستقل عذاب بنا ہوا ہے اس کا بھی بندوبست اسی قسم کی قانون سازی کے ذریعے کیا جائے اور اس قانون کو جو اس سلسلے میں چند برس پہلے بل کی صورت منظور کیا جا چکا ہے اس کی فائل پر پڑی ہوئی گرد کو جھاڑ کر ایک بار پھر منظوری کے ”تکلف” سے گزار کر نافذ کیا جائے ، اور جس طرح ہم ہمیشہ گزارش کرتے آئے ہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے اسلام آباد میں جلسوں کے لئے سنگ جانی کے علاقے کو مختص کر دیاگیا ہے پشاور میں بھی شاہی باغ ، حیات آباد ، رنگ روڈ پرجگہیں مختص کرکے سورے پل کو”محفوظ ومامون” کے سخت ترین قوانین کے دائرے میں لا کر خلاف ورزی کرنے والوں کو قیدو جرمانوں کے ذریعے روکا جائے ، پشاور کے شہری جھولیاں بھر بھر کردعائیں دیں گے کیونکہ دعائیں اور (بددعائیں) دینے میں پشوری بخیل نہیں ہیں بلکہ کھلے دل کے مالک ہیں یہ نیکی کرکے تو دیکھیں بقول نظیر اکبر آبادی
کیا خوب سودا نقد ہے
اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
Load/Hide Comments