ملک میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عوام کو جس عذاب سے دوچار کر رکھا ہے اس پر عوام اب کھل کر احتجاج کرنے لگے ہیں اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر جو مخالفانہ بیان بازی کا طوفان ساتویں آسمان کو چھو رہا ہے بالخصوص سلیب سسٹم کے تحت جو ات مچی ہوئی ہے اور 200 یونٹ میں صرف ایک یونٹ اضافے کے بعد بلوں میں 5 ہزار روپے کا جو ٹیکہ عوام کو لگایا جا رہا ہے اس کے بعد عوامی احتجاج رکنے ہی میں نہیں آرہا ہے، دوسری جانب آئی پی پیز کیساتھ کئے جانیوالے شرمناک معاہدوں کی وجہ سے بعض کمپنیوں کے بارے میں سامنے آنیوالی معلومات کے مطابق” ظلم و جور” کی جو داستانیں سناتی ہیں یعنی ایسے آئی پی پیز بھی ہیں جو ایک یونٹ بجلی بنائے بغیر ہی اداروں کا اربوں کا منافع” اچک” رہی ہیں اور ان کا بوجھ غریب عوام پر ڈال کر انہیں دباؤ میں لانے کی جو کامیاب حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اس کے پیچھے ان کمپنیوں کیساتھ ہونیوالے وہ ظالمانہ معاہدے ہیں جن پر دستخط کرتے ہوئے متعلق افراد نے یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ معاہدے ایک روز ملکی معیشت کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے ملک کو اقتصادی طور پر ” سرنڈر ” جیسی صورتحال سے دوچار کر دیں گے، مگر چونکہ ان آئی پی پیز میں نہ صرف غیر ملکی بلکہ خود پاکستانی کمپنیاں بھی شامل ہیں جو سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے یہ عذاب عوام پر مسلط کرا چکی ہیں ،مگر جب سے اس حوالے سے ان معاہدوں کی حقیقت عوام پر کھل چکی ہے اب عوام کسی بھی طور مان کر دے رہے ہیں نہ ہی اس حوالے سے حکمران طبقات کی کسی تاویل پر کان دھرنے کو تیار ہیں ،اگرچہ وزیر توانائی اویس لغاری نے کچھ عرصے پہلے ان معاہدوں کو ” اٹل ” قرار دیتے ہوئے ان پر نظر ثانی کرنے کو ملک کیلئے نقصان دہ قرار دیا اور دبی زبان میں عوام کو تڑی لگائی کہ اگر یہ معاہدے چھیڑے گئے تو گویا ”بھونچال” آ جائے گا، مگر بعض سیاسی جماعتوں نے بھی عوامی مطالبات پر احتجاج کا راستہ اپنایا تو حکومت کو ہوش آگیا اور حکومتی سطح پر ان معاہدوں پر نظر ثانی کرنے کے بیانات سامنے آنے لگے، یہ الگ بات ہے کہ اس قسم کے بیانات کے باوجود ہر چند روز بعد بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں اور بجلی کے بلوں میں اضافے پر اضافہ ہوتا رہتا ہے، اور باوجود یہ کہ اب موسم میں بھی کچھ نہ کچھ بہتری آرہی ہے اور جہاں پر ائرکنڈیشنز کا استعمال کم ہو گیا ہے وہاں کولر فین کے استعمال میں بھی کمی آرہی ہے، خصوصاً رات کو خنکی میں بتدریج اضافہ صورتحال میں بجلی کی کھپت میں کمی کا باعث بن رہا ہے مگر قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے بلوں میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے، اگرچہ ان حالات کی وجہ سے اب لوگ تیزی سے سولر سسٹم اپنا رہے ہیں ،حالانکہ اس حوالے سے بھی وہ جو سولر سسٹم والوں کو کچھ رعایتیں ساری دنیا میں مل رہی ہیں ،یعنی واپڈا کی جانب سے پاکستان میں بھی اضافی بجلی ( انتہائی سستے داموں) خریدنے کیلئے مخصوص میٹروں کی تنصیب کی جاتی ہے ،اب اس پر بھی ” قدغن ” کے سائے چھا رہے ہیں اور متعلقہ سسٹم میٹروں کی تنصیب سے پہلے انکار کیا جاتا ہے اور کوئی اثر و رسوخ استعمال کرے تو مبینہ طور پر بغیر مٹھی گرم کئے انہیں دھتکار دیا جاتا ہے، بہرحال آج جو تازہ خبر سامنے آئی ہے اس میں وزیر توانائی اویس لغاری کی جانب سے پاور پروڈیوسرز اور حکومت کے درمیان موجودہ ظالمانہ معاہدہ پر نظرثانی کیلئے بات چیت جاری کا عندیہ دیدیا گیا ہے تاکہ وبقول ان کے بجلی کی موجودہ ناقابل برداشت قیمتوں کے نظام پر نظر ثانی کی جائے، بقول وفاقی وزیر پاور کمپنیوں کو معاہدے کے نئے مسودے نہیں بھیجے گئے بلکہ پیشہ ورانہ انداز میں بیٹھ کر بات ہوگی، یہاں ایک بار پھر ان عوامی مطالبات کو سامنے رکھنا پڑے گا کہ جن کمپنیوں کی جانب سے ایک یونٹ بجلی بھی قومی گرڈ میں نہیں دی جا رہی ان کو کس قانون اور اخلاق کے تحت اربوں روپے دئیے جا رہے ہیں، کہیں( خدانخواستہ) ان میں انڈر دی ٹیبل کوئی معاملات تو موجود نہیں جن کی وجہ سے ان” مفت خوروں” سے جان چھڑانے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے؟، دوسری ایک خبر جو صوبہ پنجاب میں وزیراعلیٰ مریم نواز کی جانب سے جس ریلیف کا گزشتہ ماہ اعلان کیا گیا تھا اس کا اطلاق کرتے ہوئے وہاں بلوں پر یہ الفاظ درج کئے جا رہے ہیں کہ” آپ کے بل میں 5418 روپے مریم نواز نے ادا کر دئیے”، سوشل میڈیا پر اس ریلیف کے حوالے سے ملک کے دیگر صوبوں میں پہلے ہی تنقید کی جا رہی تھی جبکہ اب یہ عوامی بیانیہ بھی سامنے آیا ہے کہ یہ رقم حکومت پنجاب کے خزانے سے ادا کی جا رہی ہے تو پھر ان اعتراضات کے مطابق یہ ریلیف وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنی جیب سے ادا نہیں کئے تو عوام کو” احسانمندی” کے بوجھ تلے وزیراعلیٰ صاحبہ کا ممنون کیوں بنایا جا رہا ہے؟، امید ہے ملکی سیاست سے ان رویوں کو ختم کیا جائیگا۔