کسی طور یہ بیل۔۔۔۔

نیشنل ایکشن پلان کے تحت وفاقی حکومت نے خیبر پختونخوا میںایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن دوبارہ نافذ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ اسے بلوچستان میں بھی اسے نافذ کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے جس کے تحت تمام مدارس کی 100فیصد رجسٹریشن یقینی بنا نے ، مدارس میں غیر ملکی اساتذہ اور طلبہ کی میپنگ کرنے اور مالی امور کی نگرانی کا ٹاسک صوبوں کے حوالہ کردیا گی ۔ وفاقی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے 13نکات میں تبدیلی کرتے ہوئے تمام صوبوں کو اس پر عمل درآمد کی ہدایت کردی ہے جون میں ہونیوالی فیڈرل ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں منظور کئے گئے 13نظر ثانی شدہ نکات صوبائی حکومتوں کو بھجوائے گئے ہیں اور ان سے ایکشن کی ماہانہ رپورٹ طلب کی جائیگی۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبوں کو د ی جانے والی ذمہ دایر اور مجوزہ اقدامات ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کے متقاضی ذمہ داری ہے ان نکات پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی جس قدر سنجیدگی اور قوت نافذہ کی ضرورت ہے اس حوالے سے بھی تبصرہ ممکن ہے لیکن ان تمام باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے جو سوالات ذہن میں اٹھتے ہیں کہ اولاً اس سلسلے میں اب تک رکاوٹیں کیا تھیں نیشنل ایکشن پلان پر سیاسی حکومتی اور عسکری قیادت کے کامل تعاون اور رائے سے تیاری کے باوجود اس پر ہنوز عدم عملدرآمد کی ذمہ داری اور کوتاہی کے ارتکاب پر کس کو الزام دیا جائے دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا صوبوں کو وہ اختیارات حاصل ہوں گے جن کا استعمال کرکے وہ مثبت نتائج کی سعی کرسکیں اور کیا صوبوں کی مشاورت اور بوقت ضرورت ان کو ضروری اعانت اور کمک مل سکے گی نیز ان کی راہ میں خود ریاستی اداروں کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی نہ کرکے تعاون کا ماحول ہو گا بظاہر ہی نہیں نیشنل ایکشن پلان بننے سے لے کر اب تک اس پر عملدرآمد میں رکاوٹ او ناکامی کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے اہم نکتہ عدم تعاون اور مربوط عمل کی بجائے یکطرفہ اور اپنی مرضی کی ٹریفک چلانا ہے صرف یہی نہیں بلکہ یکطرفہ ٹریفک چلانے کے باوجود بھی دو عملی و تضادات کی بھر مار کا ہے اس طرح کی صورتحال میں جہاں دخل در معقولات ہوں اور بے جا مداخلت کرکے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں اور پھر اس پر عملدرآمد کی بھی خواہش رکھی جائے دونوں بیک وقت ممکن نہیں سنجیدگی اور متانت کا تقاضا یہ ہے کہ صرف دینی مدارس کی رجسٹریشن ہی کو شرط اول نہ گردانا جائے بلکہ دہشت گردی کے وجود کے ہر معلوم اور نامعلوم حصے کو کاٹ کر پھینکنے کا عزم کرکے اس پر پوری قوت سے عملدرآمد کی سعی کی جائے بصورت دیگر منصوبے بنتے او رنامکمل بلکہ ناکامی کا شکار ہو کر ملک و قوم کا منہ چڑاتے رہیں گے اور انسداد دہشت گردی کا خواب کبھی پورا نہ ہوسکے گا۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی کے پے درپے واقعات