خیبر پختونخوا کابینہ میں ردوبدل اور توسیع سے متعلق سمری گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے چھٹے مشیر کی سفارش جس کی آئین میں گنجائش نہیں ہے۔اس بناء پر اسے رد کرنا آئینی ذمہ داریوں کے احساس کے زمرے میں آتا ہے گورنے سمری وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب واپس کرکے آئینی قدم ہی نہیں اٹھایا بلکہ صوبے کے خزانے پر بوجھ کو بھی کم کرنے کی ذمہ دارانہ کوشش ہے گورنر ہائوس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ چھٹے مشیر کی تقرری سے خیبر پختونخوا کابینہ میں ردوبدل اور توسیع کے حوالے سے سمری تقریبا 12روز قبل گورنر خیبر پختونخوا کو ارسال کی گئی تھی جس پر دو ہفتوں یعنی 14روز میں گورنر نے جواب دینا تھا کسی بھی قسم کا جواب نہ دینے کی صورت میں سمری منظور تسلیم کرلی جاتی تاہم گزشتہ روز گورنر خیبر پختونخوا نے صوبائی حکومت کی جانب سے ارسال سمری پر اعتراض لگا کر اسے واپس کردیا ہے گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کی جانب سے سمری پر لگائے گئے اعتراض میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 130کے تحت وزیر اعلیٰ کو صرف 5مشیر رکھنے کی اجازت ہے جبکہ سمری میں چھٹے مشیر کی تقرری کی بات کی گئی ہے جو خلاف آئین ہے جس کی وجہ سے سمری واپس کردی گئی ہے۔البتہ گورنر کی جانب سے اس حوالے سے تکنیکی طریقے سے جو ر اہ ہموار کرکے وزیر اعلیٰ کی دھمکیوں کا جواب دیا گیا وہ الگ موضوع ہے بہرحال چھٹے مشیر کا غیر قانونی تقرر سے روکنے کا عمل ایک نظیر ہے جس کی شاید قبل ازیں پابندی نہیں کی گئی اور آئندہ بھی اس سے تجاوز کے خدشات ہو سکتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق ہی فیصلے اور اسی دائرے میں تعلقات کا رکھنا صوبے کے دو بڑے عہدیداروں کی ذمہ داری ہے جس سے احتراز سے صوبے کے معاملات متاثر ہوسکتے ہیں توقع کی جانی چاہئے کہ بڑھک بازی اور دھمکیوں کے سلسلے کو روک کر آئینی کردار اور قانون کی بالادستی کے ساتھ صوبے کی خدمت کی ذمہ داری پرتوجہ دی جائے گی اور عوام کی امنگوں پر پوری اترنے کی کوشش ہو گی۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments