جمع بین الصلاتین سفر میں جائز ہے یا نہیں؟

سوال
جمع بین الصلاتین سفر میں جائز ہے یا نہیں؟
جواب
واضح رہے کہ فرض نمازوں کو اپنے اوقات میں پڑھنا ضروری ہے چاہے سفر کی حالت ہو یا حضر ہو، ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے، قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے فرمایاہے: "بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ میں ادا کرنا فرض ہے”۔ (النساء:۱۰۳)
بصورتِ مسئولہ شرعاً ہرنماز کی ابتدا کا وقت بھی مقرر ہے اور اس کے ختم ہونے کا بھی وقت مقررہے، چاہے وہ فجر کی نمازہو، یاظہر کی نمازہو، یاعصر کی نمازہو، یامغرب ہو، یاعشاء ہو،یا جمعہ ہو؛ لہذا ان نمازوں کو اپنے اوقات میں پڑھنافرض ہے، البتہ ایامِ حج کے دورن نو (9) ذی الحج کو عرفہ میں زوال کے بعد (ظہر کے وقت میں) ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھنا اور غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ میں پہنچ کر مغرب اورعشاء کی نماز (عشاء کے وقت میں) جمع کرکے پڑھنا ضروری ہے، اس کے علاوہ کسی بھی موقع پر خواہ وہ سفر ہو یا حضر، نماز کو وقت داخل ہونے سے پہلے ادا کرنا یا بغیر عذر کے وقت گزرنے کے بعد ادا کرنا ثابت نہیں ہے۔ اور نہ ہی ایک وقت میں دو نمازیں پڑھنے سے وہ نماز درست ہوگی، نیز ایسا کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
بعض احادیث میں اس حوالے سے جو منقول ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر سفر میں کسی وجہ سے یہ صورت اختیار کرلی جائے کہ ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں ادا کیا جائے اور دوسری نماز کو اس کے ابتدائی وقت میں ادا کیا جائے تو اس کی اجازت ہے، مثلاً ظہر کی نماز کے آخری وقت میں ظہر ادا کرکے عصر کی نماز ابتداءِ وقت میں پڑھ لی جائے، یا مغرب انتہائی وقت میں پڑھ کر عشاء کی نماز ابتدائی وقت میں ادا کرلی جائے؛ تاکہ بار بار سفر روک کر پڑاؤ نہ ڈالنا پڑے۔
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:
حنفی کے لیے سفر میں بھی دو نمازیں جمع کرنا جائز نہیں
حدیث شریف میں ہے:
"مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلّٰى صَلَاةً بِغَيْرِ (لِغَيْرِ) مِيْقَاتِهَا إِلَّا صَلَاتَيْنِ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَصَلَّى الْفَجْرَ قَبْلَ مِيْقَاتِهَا”.
(صحیح البخاري، باب من یصلي الفجر بجمع، رقم الحدیث:1682)
ترجمہ: میں نے نبی کریم ﷺ کونہیں دیکھا کہ آپ نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھی ہو، مگر دو نمازیں یعنی مغرب اور عشاء (مزدلفہ میں )آپ نے جمع فرمائیں۔
حدیث شریف میں ہے:
"مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ.”
(سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر:۱۸۸)
ترجمہ: جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں )جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔
فتاوی شامی میں ہے:
” (ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة).
(قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء». وعن ابن مسعود مثله”.
(كتاب الصلاة، ج:1، ص:381، ط:ايج ايم سعيد)
فقط والله أعلم
________________________________________
فتوی نمبر : 144203200532
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن