دور کے ڈھول یا واقعی عزم صمیم

صوبے میں صرف دہشت گردی ہی مسئلہ نہیں بلکہ رہزنی ، اغواء برائے تاوان و بھتہ اور دیگر وارداتوں میں اضافہ بھی قابل صد توجہ امر ہے راہزنی کی وارداتوں میں چھوٹا اسلحہ استعمال ہوتا ہے اور اس طرح کا جرم عموماً موٹرسائیکل پر دو افراد کی جوڑی کرتے ہیں لیکن منظم جرائم خاص طور پر بھتہ کے لئے اغواء اور اغواء برائے تاوان اور اس سے انکار پر گھر دکان اور دفاتر پردستی بم حملے اور فائرنگ کے پس پردہ منظم گروہ ہی ملوث ہوتے ہیں گزشتہ روز ایک ٹھیکیدار کے دفتر سے ان کو اغواء کرنے کی سعی میں سی ٹی ڈی ٹی پنجاب کے اہلکار کا موقع پر پکڑا جانا اور بغیر نمبر پلیٹ والی ویگومیں باقی کا فرارعلیحدہ سے کہانی کو رخ دینے اور شکوک و شبہات کا باعث ہے جس سے اس امر کے شبے کا اظہار کرنے والوں کے تحفظات کو توقیت ملتی ہے کہ شاید ایسا کرنے کا عمل رقم اکٹھی کرنا ہو بہرحال اس طرح کے منظم واقعے کے ایک کردار کا پکڑاجانا اتنا اہم نہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ان سے تفتیش سے کیا بات سامنے آئی اور اس طرح کے دخل در معقولات کا عمل کیسے اور کیوں کر پیش آیا اگر ایک صوبے میں قانون کے نفاذ کے ذمہ دار عناصر دوسرے صوبہ جا کر اس طرح کے امور میں ملوث ہوں تو اسے کیا نام دیا جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا اگرجہاں چھاپہ مار کر حراست میں لینا مطلوب تھا تو مقامی تھانے کی پولیس کو مطلع کرنا اور ان کی معیت قانونی ضرورت تھی جسے نظر انداز کرنے کی گنجائش نہ تھی جس صوبے میں دہشت گردوں سے لے کر دوسرے صوبوں کے قانون کے محافظین تک کی ستم رانیوں کا سامنا صوبے کی پولیس اور عوام کو ہو اس صوبے میں تو نفاذ قانون کے ایسے اقدامات ناگزیر ہو جاتے ہیں کہ یا تو ہر کندھے پر بندوق ہو یا پھر کسی کی جیب میں چاقو بھی نہ چھوڑی جائے ظاہر ہے بندوق برداری کی تو حمایت نہیں کی جا سکتی ا یسے میں صوبے کو اسلحہ سے پاک کرنے ہی کی وکالت کی جا سکتی ہے اس طرف بہت پہلے توجہ کی ضرورت تھی مگر حکومت اب بھی اس پر عملدرآمد کراسکے تو یہ دیر آید درست آید کے عین مصداق ہو گا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا میں ہونیوالے ایک اعلی سطحی اجلاس میں بتا یا گیا کہ خیبر پختونخوا میں غیر قانونی طور پر اسلحہ کی بڑے پیمانے پر ڈیلنگ ہورہی ہے جو دہشتگردوں، اغواء کاروں اور جرائم پیشہ عناصر کو اسلحہ فراہم کرنے میں مددگار ہے صوبے میں اسلحہ کی بلیک مارکیٹ ہے جس میں ممنوعہ اسلحہ باسانی دستیاب ہوتا ہے ان میں خصوصی طور پر تھرمل گن اور گرنیڈ لانچر بھی شامل ہے اس حوالے سے صوبے میں ایک بڑا آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے جو غیر قانونی اسلحہ ڈیلرز اور ممنوعی اسلحہ فروخت کرنے والوں کیخلاف ہوگا۔ ذرائع کے مطابق صوبے میں مقیم غیر ملکیوں کیخلاف ایک بار پھر سے کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے اسی طرح افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افراد کی پروفائلنگ مکمل کی جائیگی جن کی پروفائلنگ کرلی گئی ہے ان کی مسلسل ٹریکنگ کا فیصلہ کیا گیا ہے غیر قانونی قومی شناختی کارڈ کے حامل افغان شہریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے کارڈ بلاک کئے جائینگے ان کارڈز پر صوبے میں موجود جائیدادوں کے حوالے سے بھی کارروائی کی جائیگی صوبائی حکومت کی جانب سے محکمہ بلدیات اور محکمہ مال کو ہدایت کی گئی ہے کہ بلاک شناختی کارڈ پر موجود جائیدادوں کے حوالے سے کارروائی کی جائے اور ان کی کسی بھی قسم کی لین دین سے گریز کیاجائے۔ جن اقدامات کی نشاندہی کرکے کارروائی کا عندیہ دیاگیا ہے یہ ایک دوسرے سے مربوط اور دہشت گردی و منظم جرائم کے سامان اور ہتھیار ہیں جس کے خلاف منظم مہم اور تطہیر کاعمل جتنا جلد شروع اور مکمل ہو گا اتنا ہی بہتر ہو گا البتہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ صوبے میں اس طرح کا عمل ہونے جارہا ہے قبل ازیں بھی معاشرے کو اسلحہ کلچر سے پاک کرنے کی مساعی میں اسلحہ رضاکارانہ طور پر جمع کروانے سے لے کر برآمدگی تک کے اقدامات ہوتے آئے ہیں لیکن اس کے باوجود اسلحہ کی موجودگی اور اس کا استعمال یہاں تک کہ نمائش بھی معمول ہے محکمہ داخلہ کو چاہئے کہ وہ سب ے پہلے اسلحہ کی نمائش کی روک تھام کرکے اس امر کی عملی ترغیب دے کہ اسلحہ کلچر سے اجتناب کیا جائے لائسنس کے حامل اسلحہ برادری کو بھی اسلحہ سرعام لہرانے اور اس کی نمائش سے روکا جائے جس گاڑی میں گارڈز اور اسلحہ ہو اس کی واضح شناخت ہو اور پولیس اس طرح کے قافلوں اور افراد کو چیک کئے بغیر نہ چھوڑے اور صرف مجاز افراد ہی کے پاس اسلحہ ہونے کا عمل یقینی بنایا جائے افغان مہاجرین کے حوالے سے ہر بار فیصلہ کرکے اس پر عدم عملدرآمد کی صورتحال کا اعادہ نہ ہو تو لوگ اس پر یقین کرنے کو تیار ہوں گے سنجیدگی کے ساتھ محولہ منصوبے پر عملدرآمد یقینی بنایا گیا تو صوبے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آسکتی ہے حسب سابق ڈنگ ٹپائو سے کام لیا گیا تو حالات بھی جوں کا توں ہی رہیں گے۔

مزید پڑھیں:  صوبائی اسمبلی کا ڈیکورم؟