قول وفعل کا تضاد

صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ملک کو نقصان پہنچانے والی محاذ آرائی کی سیاست کے خلاف ہیں۔ ایوانِ صدر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کے اعزاز میں عشائیہ کے موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر ِمملکت نے پارلیمانی جمہوریت کو مزید مضبوط کرنے اور سیاسی استحکام فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ملک کو سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی چیلنجز سے نکالنے کیلئے سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی فلاح کیلئے گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر پرعزم طریقے سے کام کرنا ہوگا۔ صدر مملکت معتدل مزاج سیاستدان اور مفاہمت کے بادشاہ کی شہرت کے حامل رہے ہیں ان کی جماعت حکومت کی اہم اتحادی اور حصہ دار ہے سیاسی جماعتوں سے بھی صدرمملکت کے اچھے روابط رہے ہیں ملک کے آئینی سربراہ کے طور پر ان کا رتبہ بھی سنجیدہ مصالحانہ کردار کا حامل ہے ان کے اظہار خیال سے بھی اختلاف نہیں کیا جا سکتا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک جانب جہاں حکمرانوں اور سیاستدانوں کے اجتماع میں اس طرح کے خیالات کا اظہار ہوالیکن دوسری جانب اسی دوران ایک مقبول سیاسی جماعت کے اہم قائدین کی چن چن کر گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں سیاسی جماعتوں کی طرف سے جلسے جلوسوں میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں معمول کی بات ہے اگرچہ ایسا ہونا نہیں چاہئے ماضی میں اس طرح کے الزامات پر مقدمات کا اندراج بھی معمول کی بات ہے اس مرتبہ نئے قانون کے تحت سنجیدگی سے کارروائی کی مخالفت تو نہیں کی جا سکتی وفاقی دارالحکومت کو آئے روز محاصرے میں ہونے سے بچانے کے لئے قانون سازی اور اس پرعملدرآمداحسن امر ہے البتہ اس امر کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آیا اس قانون کی معتدل خلاف ورزی ہوئی ہے یا پھر اس کی دھجیاں اڑادی گئی ہیں یہ درست ہے کہ قانون پر عملدرآمد خلاف ورزی سے مشروط ہوتی ہے معتدل اور سخت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اس کے باوجود دیکھا جائے کہ تحریک انصاف نے حکومتی اجازت سے دور ویرانے میں پرامن جلسہ کیا اور ضابطہ اخلاق کی اگر تھوڑی بہت خلاف ورزی ہوئی بھی تھی تو اسی مناسبت سے کارروائی ہونی چاہئے تھی اس طرح کا سخت عمل پہلے سے کشیدہ سیاسی فضا کو مزید مکدر کرنے کا باعث بن سکتا ہے حکومت اس طرح سے قانون میں ترمیم اور کوئی ممکنہ قانون سازی کرے تو یہ مناسب نہ ہو گا کہ حزب ا ختلاف کو یوں رگید کر حکومتی عزم کے لئے راہ ہموار کی جائے توقع کی جانی چاہئے کہ صدرمملکت ان امور پر بھی حکومت کو کوئی مشورہ دیں گے اور آئے روز دو آتشہ ہوتی سیاسی درجہ حرارت میں کمی لانے کی سعی کی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  نامناسب وقت پر احتجاج