ہمارے معاشرے میں جو سب سے بڑی کمی ہے اس کا تعین نوے فیصد والدین نہیں کرتے ۔وہ کمی ہے بچوں کی فعال تربیت سے پہلو تہی کرنا ۔ دنیا میں تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ اقوام سب سے زیادہ توجہ اپنے بچوں کو دیتے ہیں اور ا ن کی ہر سطح پر عملی تربیت کرتے ہیں اس لیے ان کی نئی نسل مستقبل کے چیلنجوں کے لیے تیار رہتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بچے تربیت کے بغیر پلتے ہیں ۔ یہ بنیادی طور پروالدین کا فرض ہے ۔ مگر والدین بچوں کو سکو ل اور مدرسہ بھیج کر خود کو اس فرض سے بری الذمہ سمجھتے ہیں ۔ گھر میں جو تربیت ہوسکتی ہے اس کا دسواں حصہ بھی سکول اور مدرسے میں ممکن نہیں ہے ۔ عورت کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے اس لیے کہ بچے کی اولین درس گاہ والدہ کی گود ہے اس کے بعد گھر کے دیگر افراد جن سے بچہ مانونس ہوتا ہے وہ ان سے سیکھتا ہے ۔ لیکن گھر کے افراد بچوں کی شعوری تربیت کا انتظام نہیں کرتے ۔ اس معاملے میں دنیا بھر کے یہودی بہت شہرت رکھتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں ۔ اس لیے ان کے بچے زندگی کے میدان میں اور پھر کسی بھی کاروبار یا کام میں بہت زیادہ کامیاب رہتے ہیں ۔ وہ پہلی قدر جو بچوں کو سکھانا لازمی ہے وہ ہے وقت کی قدر اور پابندی ۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں وقت کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ کوئی اس کی پابندی کرتا ہے اس لیے ہماری زندگی اور معاملات کا سلسلہ کسی بھی سطح پر موثر نہیں ہے ۔بچے کے لاشعور اور تحت الشعو ر میں جو چیزیں بچپن سے بیٹھ جاتی ہیں وہ پھر تمام عمر اس کے ساتھ رہتی ہیں ۔وقت کے پابند انسان کی زندگی نہایت سہولت اور کامیابی سے بسر ہوتی ہے ۔ اس لیے اپنے بچوں کو وقت کا پابند بنائیں ۔اور ان پر سختی کریں تاکہ وہ زندگی میں کامیاب ہوسکیں ۔ اپنے بچوں کو دریافت کریں ان کی وہ صلاحیتیں جن کی وجہ سے وہ دوسرے بچوں سے ممتاز ہوتے ہیں ان صلاحیتوں کو نکھاریں اور اس سلسلے میںاگر ان بچوں کو مزید تربیت اور مدد کی ضرورت ہو تو وہ انہیں فراہم کریں اس لیے کہ دنیا میں انسان کسی نہ کسی خاص ہنر و قوت کے ساتھ پیدا ہو تا ہے ۔جس میں تھوڑی محنت اور مشقت کے وہ بعد وہ انسان کمال حاصل کرسکتا ہے ۔ مغرب میں والدین اور اساتذہ بچوں میں پوشید ہ اس وصف کو تلاش کرلیتے ہیں اور پھر بچے کے ان صلاحیتوں کو پالش کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اس شعبہ میں نمایاں نام کماتا ہے ۔ اگر آپ کے بچوں میں دوڑنے کی اچھی صلاحیت ہے تو بچپن ہی سے اسے ایتھلیٹ بنانے کا عمل شروع کریں ۔ اگر وہ اچھی پینٹنگ کرتا ہے تو اس شعبہ میں مہارت حاصل کرنا کا موقع فراہم کریں ۔غرض دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی وصف میں کمال رکھتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں والدین اور اساتذہ اس وصف کو دریافت نہیں کرتے یا اس پر توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے بچے کی وہ صلاحیت جس کی بنا پر وہ زندگی میں کامیاب ہوسکتا تھا یا ملک و قوم کے لیے نام کماسکتا تھا وہ ضائع ہوجاتا ہے ۔ اپنے بچوں کو وقت دیں ان کے ساتھ باتیں کریں ۔ ان کی ذہن سازی کریں ۔ہمارے ہاں والدین ایسا نہیں کرتے جس کی وجہ سے بچہ بیرونی ذرائع سے سیکھتا ہے یا غیر اخلاقی اور بیہودہ چیزوں کی طرف راغب ہوتا ہے ۔ اگر اپنے بچے یا بچی کے ساتھ دن میں ایک ادھ گھنٹہ بیٹھ کر کسی بھی موضوع پر گفتگو کریں گے تو اس سے وہ دوری ختم ہوجائے گی جو آج کل کے والدین اور بچوں میں پیدا ہورہی ہے ۔ اس سے آپ کے بچوں میں اعتاد بڑھے گا ۔وہ زندگی کو زیادہ واضح اور بامقصد نظر سے دیکھنا شروع کردیں گے ۔ اس تربیت اور وقت دینے کے نتیجے میں کل جب وہ خود والدین ہوں گے تو مستفید ہوں گے اور اس سلسلے کو دوام دیں گے ۔ جنوبی کوریا میں والدین اپنے بچوں کو باقاعدہ تربیت دیتے ہیں کہ وہ زندگی کیسے گزاریں گے ، صحت کا کیسا خیال رکھیں گے اور معاشرے میں کیا رول ادا کریں ، وہاں استاد بھی یہ فریضہ سرانجام دیتا ہے اس لیے کوریائی معاشرے میں والدین اور اساتذہ کی بہت زیادہ عزت اور قدر کی جاتی ہے ۔ یہی حال جاپان میں ہے ۔ بچے آپ کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں ۔انہیں حقیقی تربیت دیں ، انہیں شارٹ کٹس نہ سکھائیں نہ ہی ان سے امتحان میں نقل کروائیں اس لیے کہ سیکھنا سے وہ فائدے میں رہیں گے ۔ ہمارے معاشرے میں جو یہ نمبر لینے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اس کے پشت پر بھی یہی غلط رجحان کارفرما ہے ۔ ہم اپنے بچوں کو حقیقی معنوں میں کامیاب نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح بغیر تربیت اور صلاحیت کے آگے بڑھ جائیں ۔ پھر ہم تمام عمر ان بچوں کو اسی مصنوعی طرز زندگی میں آگے دھکیلتے چلے جاتے ہیں ۔ بچوں کو شخصیت پرستی سے بچائیں اس لیے کہ بچے کا ذہن خالی ہوتا ہے ان کا تجربہ نہیں ہوتا اس لیے ان کو باآسانی لوگ اپنے بیانیے کا شکار بنا لیتے ہیں ۔ ایک دفعہ یہ بچے جب ان مفاد پرست لوگوں کے نرغے میں آجاتے ہیں اس کے بعد یہ انہیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔اورمسائل والدین کے لیے پیدا کرتے ہیں ۔ اپنے بچوں کو غیر ضروری وسائل اور آزادی نہ دیں اس لیے کہ یہ دونوں چیزیں نقصان کا باعث ہوتی ہیں ۔ اپنے بچوں کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھیں ان کو کھیلوں کی طرف راغب کریں ، انہیں واک پر اپنے ساتھ لے جائیں انہیں پہاڑوں پر جانے کی ترغیب دیں ۔ انہیں کسی کار خیر میں حصہ لینے کے لیے مجبور کریں ۔ ان سے جسمانی کام کروائیں ۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو وہ موبائل فون کی سکرین تک محدود ہوجائیں گے ۔ اور سوشل میڈیا پھر ان کی جو تربیت کرے گا وہ آپ کے لیے وبال جان بنے گا ۔ بچوں کوچغلی اور غیبت کرتا دیکھ کر ان کی حوصلہ افزائی نہ کریں بلکہ انہیں سختی کے ساتھ منع کریں اس لیے کہ یہ پھر ان کی عادت بن جائے گی ۔بچوں کو کتاب پڑھنے کا عادی بنائیں اس لیے کہ کتاب بہترین انداز میں تربیت دینے کا سب سے اچھا وسیلہ ہے۔ اپنے بچوں کو کامیاب لوگوں کی سوانح عمریاں اور خودنوشت یا آپ بیتیاں خرید کردیں ۔جس سے ان میں کامیاب بننے کی آمنگ پیدا ہوگی ۔ اپنے بچوں کی صحبت پر نظر رکھیں ۔ کوشش کریں کہ آپ کے بچے کامیاب لوگوں کی صحبت میں رہیں اس لیے کہ صحبت کا اثر ہوتا ہے ۔ بچوں پر ذمہ داری ڈالیں ، ان کو کام کرنے کا موقع دیں ۔ گھر کی کچھ ذمہ داریاں انہیں دیں ۔ ان پر اعتماد کریں ۔ ا ن کو اچھے ناموں سے بلائیں ،لوگوں کی سامنے ان کی تعریف کریں اور سب کے سامنے ان کی ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں ۔ انہیں لوگوں سے برتاؤ کے اچھے گُر سکھائیں ۔ اس لیے کہ جتنا وقت آج آپ اپنے بچوں کو دیں گے اتنا ہی وہ جب آپ بوڑھے ہوجائیں گے وہ آپ کو دیں گے ۔ اس لیے اس نیک کام کا آغاز آج سے کردیں اس لیے کہ گھر اور معاشرہ تربیت اور اعتماد سے پنپتے ہیں ۔