ماہ ستمبر کی اہمیت مشرق وسطی کی حالیہ تاریخ میں کافی زیادہ اہمیت کی حامل ہے امریکی وساطت سے پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات اور اسرائیل کے درمیان فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب کیا جانے والا پہلا معاہدہ اوسلو ستمبر1993، اسرائیل ،فلسطین معاہدہ ستمبر 1995تاکہ فلسطینی اور اسرائیلی حکومتی اختیار کا تعین کیا جاسکے ، ابراہا م معاہدہ ستمبر2020جس کے بعد یو اے ای ، قطر ، بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو قائم کر لیا اور اب چھ ستمبر کو امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ اینتھونی بلنکن کا انکشاف کہ سعودی عرب اوراسرائیل ، امریکہ کی کوششوں کی وجہ سے اپنے سفارتی تعلقات بہتر بنانے کے معاہدے کے نہایت نزدیک ہیں اور جنوری2025سے قبل ہی صدر جوبائیڈن کے وائٹ ہاس میں ہوتے ہوئے یہ معاہدہ طے پا جانے کا قوی امکان موجود ہے۔ اس کے بعد نو ستمبر کو مڈل ایسٹ امریکہ ڈائیلاگ کے فورم پر جس کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں ، امریکہ میں موجود سعودی سفیر شہزادی ریما بنت بندر السعود کا اسرائیلی افسران سے اس فورم پر خوشگوار ماحول میں ملنا اور ایک بحرین اور مراکش کے نمائندوںپر مشتمل پینل کی سربراہی کرنا جس میں مڈل ایسٹ پر بحث بھی شامل تھی، ماہ ستمبر کے ماضی سے اب تک ہونے والے ان تمام معاہدات میں امریکیوں نے بڑا بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب کے فی الواقعی سربراہ شہزادہ محمد بن سلمان یا سعودی عرب کے کسی اور سرکاری یا غیر سرکاری رابطے ، واسطے سے کوئی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی ہے ۔مغربی میڈیا میں تو یہاں تک آگیا ہے کہ اس سال امریکی انتخابات کے ہونے اور وہاں نئے صدر کے آجانے تک یعنی وسط نومبر سے وسط جنوری 2025تک کا وقت ہے اس درمیان میں یہ تاریخی معاہدہ امریکی طے پاجائے گا -مغربی ذرائع ابلاغ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان اس صورتحال سے کافی زیادہ بے چین ہیں ۔ وہ کسی ایسے سعودی اسرائیل سفارتی معاہدے کے حق میں نہیں ہیں جس میں فلسطین کہ قیام کی مکمل ضمانت موجود نہ ہو ۔وہ مصر کے صدر انوار سادات کے انجام سے بچنا چاہتے ہیں ۔سادات کو 1979میں ہونے والے اسرائیل مصر کے کیمپ ڈیو ڈ سمجھوتے کے بعد اسلامی انتہا پسند خالد اسلامبولی نے قتل کر دیا تھا- شہزادہ سلمان اپنے آپ کو اس صورتحال سے بچانا چاہتے ہیں ۔اگر فلسطین اسرائیل تنازع کو 1940 کے بعد سے دیکھا جائے تو اس کے تین واضح زاویے سامنے آتے ہیں۔ پہلا جس کے بانی پاکستان محمد علی جنا ح بھی قائل تھے اور مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی بھی ۔وہ یہ کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جس کو مسلمان فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضہ کر کے قائم کیا گیا ہے اس لیے اس کا وجود قائم رہنا ہی نہیں چاہیے ۔ اس زاویے اور سوچ کی وجہ سے باوجود اقوام متحدہ کی 1948کی قرارداد کے جس میں ایک دو ریاستی نظام کو قائم کیا گیا ہے اور فلسطین اور اسرائیل کو دو الگ ریاستوں کے طور پر دیکھا گیا ہے1948،1956، 1957اور 1973تک عربوں اور یہودیوں کے مابین چار خونریز جنگیں ہوئیں۔ علاوہ آخری جنگ کے کسی بھی لڑائی میں عربوں کو کچھ نہ ملا اور فلسطینیوں سے سب کچھ چلا گیا اور وہ مہاجر بھی بن گئے۔ شام اور مصر کے بہت وسیع علاقے اسرائیل کے قبضے میں چلے گئے اور اسرائیل اس سے کہیں زیادہ وسیع ہو کر سامنے آیا جس ریاست کا ذکر اقوام متحدہ کی قرارداد1948 میں موجود ہے۔ امریکیوں کی وساطت سے ہونے والے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے 1979کو مشرق وسطی کی حالیہ سیاسی تاریخ میں ایک یوٹرن کے طور پر دیکھا جاتا ہے اس نے سادات کی قربانی لے لی اور مصر کو بے دست و پا کر دیا۔ سوویت یونین کے1992میں انہدام کے بعد عرفات کا کوئی نہیں رہا تو وہ بھی اوسلومعاہدے کی میز پر جا بیٹھے اور اس طرح پی ایل او ایک گوریلا تنظیم سے ریاستی سیاسی تنظیم بن گئی ۔فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف پہلا قدم اٹھ گیا ۔پاکستان کی فلسطین پالیسی ہمیشہ عربوں کی سوچ کے تابع رہی بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ سعودیوں کے تابع رہی۔ اسرائیل کے بارے میں اس قدر نفرین رویہ مسلم دنیا میں قائم ہوا کہ پاکستان اسرائیل کو مٹا دینے کے نظرئیے سے اقوام متحدہ کے دو ریاستی نظریہ تک آگیا لیکن اپنے عوام کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی ۔یہاں عامتہ الناس ابھی تک اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ پاکستان اسرائیل کے قیام کے خلاف ہے حالانکہ ایسا نہیں پاکستان اقوام متحدہ کے دو ریاستی نظام کا الااعلان حامی ہو چکا ہے۔اور جناح کے مزار کی جانب پشت کر کے کھڑا ہوا ہے ۔یعنی فلسطین اسرائیل تنازع کا دوسرا زاویہ اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل درآمد ہے۔ اس مسئلے کا ایک تیسرا زاویہ بھی ہے کہ نہ صرف فلسطین و اسرائیل کی ریاستیں جیو اور جینے دو کی پالیسی کے مطابق چلیں بلکہ اسرائیل کو اس کے مخالفین ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر لیں اور یہ وہ ایک زہر کا پیالہ ہے جو پاکستان پیے گا تو لیکن اس سے پہلے اس کو حفظ ما تقدم کے طور پر سعودی عرب کو پیتا دیکھنا چاہتا ہے ۔مشرف کے وزیر خارجہ قصور ی نے بھی 2005 میں اسرائیل کی جانب قدم بڑھاتے ہی اپنے سفر کو تمام کر دیا تھا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ 2005 میں امریکہ کی سیاہ فام سیکرٹری خارجہ مسزرائیس نے جو خواب نئے مڈل ایسٹ کی شکل میں دیکھا تھا اس کی تعبیر کیسی نکلتی ہے ۔امریکیوں کی سوچ میں ایک نیا مشرق وسطی مسلم دنیا کے فرقہ وارانہ تعصبات سے عبارت ہوگا ۔یہاں مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کو ایک چھوٹے گروہ پر لاد دیا جائے گا اس طرح سے سعودی عرب اور اسرائیل مستقبل کے مشرق وسطی کو امریکہ کی سوچ کے مطابق چلائیں گے۔ یو اے ای قطر بحرین سوڈان مراکش اور ترکی کے سفارتی تعلقات کے بعد زیادہ تر مڈل ایسٹ کے ملکوں نے اسرائیل سے خفیہ تجارتی و سفارتی مراسم قائم کر لیے ہیں ۔پاکستان کا کردار مشرق وسطی میں ختم ہونے کو ہے جناح تو ہمیشہ یہی چاہتے تھے کہ پاکستان اپنی ایک ٹانگ مشرق وسطی میں جمائے رکھے لیکن بدلتے ہوئے اسٹریٹیجک منظر نامے میں اس ٹانگ کے جوتے کا تسمہ بھی کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔پچاس ستاروں کے جھرمٹ میں تیرہ گلابی پٹیوں کے سائبان تلے آگ کی تپش اور لہو کی سرخی سے نہایا ایک نیا امریکی مشرق وسطی خواب سے حقیقت بننے کو ہے۔