اب نہیں تو کب؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے جوانسال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں دھیمے انداز میں اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے دبنگ انداز میں اپنے خطاب میں جو بات کہی ہے ان کا مرکز خیال ایک ہی اور انداز بیاں جدا جدا ہے ایوان میں جو بات زیادہ آزادی سے کہی جا سکتی ہے اس طرح کا اظہار خیال جلسے میں کم ہی کیا جاتا ہے لیکن وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے مختلف معاملات پر جس طرح کھل کر گفتگو کی ہے وہ قابل توجہ ہیں اور اس سے بگڑتے حالات تفاوت اور دوریوں کا بھی اندازہ لگایاجا سکتا ہے توجہ طلب امر یہ ہے کہ اس کی نوبت کیوں آئی کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ آتش فشانی پر مجبور ہو گئے شدت اختیار کرتی درجہ حرارت میں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی بڑی صائب تجویز پیش کی ہے کہ سیاستدان میثاق پارلیمان کریں ملکی سیاستدان سیاست اور حکومت جن مراحل اور دشواریوں سے گزرتی آئی ہے اور بدستور اس کا سامنا ہے قطع نظر حکومتی بینچوں اور حزب اختلاف کی بنچوں کے اس امر پر پارلیمان کی سطح پر ہی اجماع کی کیفیت پیدا ہوتی نظر آرہی ہے کہ ان حالات کے ت قاضے کیا ہیں اور اس سے کیسے نکلا جائے سیاستدانوں کے مفادات اورحکومت کی مجبوریاں و مصلحتیں ہوتی ہیں مگر عوام کی سطح پر اب یہ صورتحال بن گئی ہے کہ بلا امتیاز سیاسی جماعت اور نظریات دینی ، سیاسی ، قومی ،علاقائی غیر سیاسی و سماجی معاشرے میں جہاں جہاں بھی جس جس سے تبادلہ خیال کیاجائے حیرت انگیز طور پر رائے عامہ اب سونہیں تو ننانوے فیصد اب ایک ہی بات کہہ رہی ہے کہ اس طرح کی صورتحال ملک کے مستقبل وحدت اور یکجہتی و سلامتی کی صورتحال کے لئے ناقابل تلافی نقصان کی طرف دھکیلنے کا باعث بن رہی ہے عوام منتظر ہیں کہ سیاستدان اور پارلیمان کو اس ضمن میں اپنے کردار اور ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے آگے آئیںجن کو اس ضمن میں ہر قسم کی سیاسی مخاصمت و مفادات کو پش پشت ڈال کر ملک میں آئین و قانون کے عملی اور حقیقی نفاذ کی ذمہ داری پوری کر لینی چاہئے سیاستدان اور حکمران قومی اسمبلی کے اجلاس میں جس نہج پر کھڑے ہیں وہ ایک صاف اور واضح سمت ہے اب تک اپنی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف صرف کرنے کے نتائج بھی ان کے سامنے ہیں اور جس طرح حالات نے ان کو بے بسی کی تصویر بنا دی ہے اس کا بھی تقاضا ہے کہ وہ جلسوں ، سڑکوں ، پارلیمان اور عوام میں علیحدہ علیحدہ بلکہ مخالفانہ کردار کا مظاہرہ کرنے کی بجائے حالات کی بہتری اور تبدیلی کی راہ میں خود ہی مزاحم اور رکاوٹ کا باعث نہ بنیں سیاستدان ایک مرتبہ اگر ہم آواز ہو جائیں تو نہ صرف تاریخ کی درست سمت کھڑے ہوں گے بلکہ تبدیلی کی بھی ابتداء ہو گی اگر وہ اس وقت بھی ایسا نہ کر پائیں اور اکٹھے نہ ہو سکیں میثاق پارلیمان میثاق معیشت او ر میثاق عمل کے ذریعے ملک کی سمت درست او رعوام کی امنگوں کا آئینہ دار نہ بنیں توپھر نہ چاہتے ہوئے بھی بنگلہ دیش کی مثال دینی پڑے گی جہاں جب سڑکوں پرنکل کرلوگوں نے فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے تو اس کے نتیجے میں کیسے ناممکن نظر آنے والے حالات نہ صرف موافق ہو گئے بلکہ بہت کچھ خس و خاشاک کی طرح بہہ بھی گیا وطن عزیز میں بھی لاوا پک رہا ہے اور لوگ بلا امتیاز سیاسی مخالفت کے باوجود اب ایک نکتے پر متوجہ اور مرتکز ہونے جارہے ہیں حالات میں تبدیلی لانے اور ملک کو استحصالی عناصر سے نجات دلانے کے لئے جو فضا ہموار ہو رہی ہے اس کے ادراک کا اب آخری وقت ہے اس کی بھلی صورت پارلیمان میں مشاورت پارلیمانی جماعتوں اور سارے عناصر کے یک نکاتی رابطہ اور اتفاق کے نتیجے میں عوام کومثبت عملی پیغام و یقین دہانی ہی اب سوچوں کے دھارے کی لگامیں کھینچ سکتا ہے عوام بے لگام ہوجائیں تو ملک وقوم کا اور خود عوام اپنے آپ کابھی نقصان کرنے کی قیمت پر کامیابی حاصل کرتی ہیں یہ سوچ پختہ ہو گئی ہے کہ حالات کی تبدیلی کے بغیر اس ملک او رعوام کے بچوں کامستقبل محفوظ نہیںجس طرح لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں اور یہاں موجود پریشانی کے عالم میں ہیں اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ اس کے تدارک اور روک تھام پر توجہ دی جائے مزید وقت ضائع کئے عوام کی سنی جائے ان کے معاشی مسائل و مشکلات کا ادراک ہوناچاہئے ان کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی اور عوام کا مفاد مقدم ہو گا عوام کو عملی اقدامات کے ذریعے امید کی کرن دکھانے میں تاخیرکی گنجائش نہیںغار کے دہانے سے روشنی کی کرن دکھائی نہدے اور یہی صورتحال رہی تو پھر عوام کے غیض وغضب کا پہلا نشانہ حکمران اور سیاستدان ہی بنیں گے بعد از خرابی بسیار ہی سہی اب بھی دیر نہیں ہوئی مگر وقت کم ہے تعجیل نہ ہوئی تو تاخیر کی گنجائش اور مزید مہلت شاید ہی ملے۔

مزید پڑھیں:  نوبت بہ ایں جا رسید