خیبر پختونخوا میں ماحولیاتی آلودگی کی صورتحال دیکھ کر کسی طور لگتا نہیں کہ ماحول کی صفائی کے حوالے سے بھی کوئی ادارہ موجود ہے اور نہ ہی موٹر وہیکلز اتھارٹی کا کوئی وجود لگتا ہے ایک قاری نے حیات آباد سے شہر کے دو مختلف سکولوں کی بسوں کی ویڈیو بھیجی ہے جس میں ایک بس صبح سویرے جب لوگ نماز پڑھ کر نکلتے ہیں تقریباً اس وقت سڑک پر بچوں کو اٹھانے کھڑی ہے ڈرائیور گاڑی کو ریس دے رہا ہے اور کالے رنگ کا دھواں سائلنسر سے نکل رہا ہے دوسری بس کے ہارن کی آواز اتنی تیز ہے کہ قریب گزرنے والے لوگ کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے پر مجبور ہوںہر دو قسم کی آلودگی یعنی صوتی اور ماحولیاتی آلودگی کی یہ شاہکار بسیں طالب علموں کو ڈھو کر ٹکسالوں کو لے جاتی اور لاتی ہیں ان کے سائلنسرسے نکلنے والے تیز دھوئیں اور کان پھاڑنے والی ہارن ہی مسئلہ نہیں بلکہ جب یہ گلیوں سے اس انداز میں سپیڈ سے نکلتی ہیں تو گلی کا گردو غبار اڑ کر گھروں میں داخل ہوتا ہے ویڈیو دیکھ کر میں سوچنے لگی کہ تعلیمی مافیا کس قدر طاقتور ہے کہ کمشنر پشاور بے چارے ٹو سٹروک رکشوں ، بسوں اور ویگنوں کے خلاف تو مہم چلا رہی ہے مگر یکے بعد دیگرے ایک سکول سے مکھڑی کے جالے کی طرح کئی سکول بننے سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی میں تبدیل ہونے والے ان منافع بخش اداروں جن کے منافع کا اندازہ بھی لگانا ممکن نہیں ان کی بسوں کی اس طرح کی حالت کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں گویا آلودگی خواہ ماحولیاتی ہو یا صوتی ان کو معاف ہوں یہ بسیں مرحوم جی ٹی ایس کی نشانیاں ہیں جس کو اس وقت کے بااثر مالکان نے اونے پونے داموں حاصل کر لیا تھا اب تک چلتی کا نام گاڑی چل سو چل والا معاملہ ہے اعتراض بسوں پر نہیں وہ تو طلبہ کی سہولت کے لئے ہیں اعتراض ان کی حالت زار اور مرمت نہ کرانے پر ہے انجن کی بورنگ اور سائلنسر کی تبدیلی سکول مالکان کے لئے کوئی بڑی بات تو نہیں گلی گلی پھرنے پر وقت بھی زیادہ لگتا ہے اور آلودگی بھی زیادہ پھیلتی ہے کیا یہ بہتر نہیں کہ والدین بچوں کو سروس روڈ پر لا کر بس میں بٹھا دیا کریں تھوڑی واک بھی ہو جائے گی اور گھروں میں لوگوں کا سکون بھی غارت نہ ہوگا سکول مالکان کو بھی اسی میں ایندھن کی بچت کا فائدہ مل سکتا ہے جسے وہ بسوں کی مرمت پر لگائیں تو مسئلہ حل ،آلودگی کی کئی اقسام ہیں اور کئی قسم کی آلودگیاں ہیں کچھ کا تو ہمیں شاید علم ہی نہیں یہ جو بڑے ٹرانسفارمروں سے بہنے والا تیل زمین پر گرتا ہے ذرا اس کے بارے میں نیٹ پر سرچ کرکے دیکھیں کہ اس سے کیا ہوتا ہے کچرے کو لگائی جانی والی آگ سے اٹھتے دھوئیں سے شہری تنگ ہیں مگر کریں تو کیا کریں کس سے فریاد کریں کھلی نالیاں اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر مکھیاں ، مچھر اور تعفن کس کس کا ذکر کیا جائے سب سے مہلک اور دیرپا آلودگی کا سبب پلاسٹک کا استعمال بن چکا ہے ۔پلاسٹک کی آلودگی ہمارے وقت کے سب سے اہم ماحولیاتی چیلنجوں میں سے ایک کے طور پر ابھری ہے، اور جنوبی ایشیا پر اس کے اثرات خاصے شدید ہیں۔ عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ جس کا عنوان ہے پلاسٹک کی لہریں: جنوبی ایشیا میں سمندری پلاسٹک کی آلودگی کی ایک تصویر، اس بحران کے سراسر پیمانے پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ کچرے کے ناکافی انتظام کے سنگین نتائج اور پلاسٹک کی آلودگی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے مربوط علاقائی کارروائی کا متقاضی ہے۔ جنوبی ایشیا عالمی آبادی کا تقریبا ایک چوتھائی گھر ہے، اور اس کی خصوصیت گنجان آباد شہری مراکز اور پھیلے ہوئے دیہی علاقے ہیں۔ تیزی سے صنعت کاری اور شہرائو کے ساتھ ساتھ محولہ عوامل نے پلاسٹک کی کھپت اور فضلہ کی پیداوار میں جس طرح نمایاں اضافہ کیا ہے۔وہ خطرے کی آخری سرحدوں کو چھو رہی ہے۔ خطے میں پلاسٹک کی کھپت کا 62 فیصد سے زیادہ حصہ پیکیجنگ سے منسلک ہے، جس میں سے زیادہ تر پلاسٹک کا ایک بار استعمال ہوتا ہے جسے پھینک دیا جاتا ہے جو بعد میں دریائوں اور سمندروں میں فضلہ بن کر ختم ہوتا ہے۔ پاکستان کو اپنے پڑوسیوں کی طرح پلاسٹک کے کچرے کے انتظام میں بہت زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں پاکستان میں پلاسٹک کے کچرے کے اخراج کی شرح خطے میں سب سے کم ہے، وہاں دوسری جانب ملک کا کچرا جمع کرنے کا ناکافی انفراسٹرکچر اور غیر رسمی ویسٹ مینجمنٹ سسٹم پر انحصار اہم رکاوٹیں ہیں ہیں رہی سہی سہی کسر پوری کرنے کا باعث ہیں۔ فضلہ چننے والے اور چھوٹے پیمانے پر ری سائیکلرز پر مشتمل غیر رسمی شعبہ، کچرے کے بحران کو کم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، پھر بھی یہ غیر مرکزی اور غیر منظم طریقے سے کام کرتا ہے، اس لیے اس کی تاثیر کو محدود کرتا ہے۔ ہندو کش ہمالیائی خطہ ایک نازک علاقہ ہے جہاں پلاسٹک کی آلودگی کے اثرات شدید طور پر محسوس کیے جاتے ہیں۔ یہ خطہ، جو بڑی سرحدی ندیوں کا منبع ہے، پلاسٹک کی وجہ سے تیزی سے آلودہ ہو رہا ہے، جو سرحدوں کے آر پار بہتے ہیں، جس سے ماحولیاتی نظام اور زریں کے علاقوں میں واقع آبادی کے لئے تباہی کا باعث ہے۔ پانی کے ان نظاموں کے انحطاط سے نہ صرف حیاتیاتی تنوع کو خطرہ ہے بلکہ ان لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی اور صحت سے بھی سمجھوتہ ہوتا ہے جو پینے کے پانی، زراعت اور ماہی گیری کے لئے ان دریائوں پر انحصار کرتے ہیں۔پلاسٹک کی آلودگی کی سرحد پار نوعیت کے پیش نظر، رپورٹ میں بجا طور پر علاقائی تعاون کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک کو سیاسی دشمنیوں کو ایک طرف رکھنا چاہیے اور اس مشترکہ ماحولیاتی خطرے سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ خطے کی حکومتوں کو اس رپورٹ کے نتائج کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے کوششوں کی تجدید کرنی چاہیے۔ اس میں نہ صرف گھریلو کچرے کے انتظام کے نظام کو مضبوط بنانا ہے بلکہ فضلہ کو کم کرنے کے مقصد سے علاقائی اقدامات میں فعال طور پر حصہ لینا بھی شامل ہے۔ ہندوکش ہمالیائی خطے کے دریائوں کی صحت، اور ان پر انحصار کرنے والے لاکھوں افراد، ان قوموں کی مؤثر طریقے سے تعاون کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔جس کے بغیر خطے میں ہر ذی روح کے لئے بڑھتے خطرات میں روزانہ کی بنیادوں پر اضافہ ہوتا جائے گا اور انسانی ،جنگلی و سمندری حیات سبھی ناممکن بنتے جائیں گے۔