خیبر پختونخوا میں ایک ایسے وقت جب پولیس اہلکارفرائض منصبی کی ادائیگی ترک کرکے تقریباً ایک ہفتہ تک دھرنا اور احتجاج میں مصروف رہے آئی جی خیبر پختونخوا پولیس اور فورسز میں اختلافات پر مشوش ہیں اپنے احتجاجی فورس کے اہلکاروں کے موقف اور تحفظات کے برعکس ان کا موقف ہونا تو فطری امر ہے لیکن دوسری جانب ضلعی پولیس افسران جس طرح اپنے ماتحت پولیس فورس کے اوسط درجے سے بھی کم اہلکاروں کی شکایات اور کڑوی کسیلی باتوں پر بھی نہ صرف کان دھرنے پر ہی مجبور نہیں ہوئے بلکہ سر بھی دھنتے دکھائی دیئے یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ذرائع ابلاغ میں جو رپورٹس شائع ہوئیں اصل صورتحال اس سے کہیں زیادہ سنگین اور برعکس رہی البتہ اس کے باوجود اسے فورس میں بغاوت یا قیادت کی نافرمانی سے تشبیہ دینے کی ہر گز گنجائش اس لئے نہیں کہ وہ اپنی ہی قیادت کے سامنے اپنے تحفظات اور مشکلات بے سروسامانی کا رونا رو کر اس کے ازالے کی صورت میں اطاعت گزاری کے ساتھ فرائض کی انجام دہی کا اعلان کرتے رہے موقع پر موجود عمائدین علاقہ کو بھی جرگہ و مذاکرات یا مفاہمت جو بھی نام دیا جائے اس میں شامل کرکے عوامی و علاقائی حمایت کا بھی مظاہرہ کیا کسی ڈی پی او سے یہ شکایت کہ محکمے نے ان کو صرف سروس کارڈ دے کر وزنی لوہے کی جیکٹ تو پہنا دی ہے مگر بندوق نہیں دی اور جن کو بندوقیں ملی ہیں اس سرکاری اسلحے پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا یہ صرف پولیس ہی کی شکایت نہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بغیر وردی انسداد دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کو بھی حیرت انگیز طور پر یہ کہتے سنا گیا تھا کہ وہ ذاتی طور پر بھروسے کے قابل اسلحہ رکھنے پر مجبور ہیں اس قسم کی بے سروسامانی کی کہانیاں عام نہیں لیکن پولیس اہلکار نے بھرے مجمع میں اپنے سینئر افسر کو سرکاری بندوق فراہم نہ کرنے کی جو شکایت کی ہے یہ باعث حیرت ہی نہیں باعث افسوس بھی ہے کہ ہم پولیس سے نہتے ہاتھوں دہشت گردوں سے پنجہ آزمائی کی توقع رکھتے ہیںدوسری جانب حال ہی میں دہشت گردوں کی جانب سے جس قسم کے جدید ترین آلات اور اسلحہ کے استعما ل سے پولیس فورس کے جانی نقصان اور مقابلے کی صلاحیت کی کمزوری سانے آئی تھی اس کے باوجود تازہ صورتحال بھی ماضی سے مختلف نہیں آئی جی خیبر پختونخوا کی پولیس اور فورسز کے اختلافات دورکرنے میں مشکلات کی تو بخوبی سمجھ آتی ہے اور اصولی طور پر ایسا ہونا نہیں چاہئے اس کا اگر باقی معاملات کو اور تحفظات کو ایک طرف رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو پولیس کی محرومیوں کی ایک بڑی وجہ خود محکمہ جاتی رویہ اور ضروری سے ضروری وسیلہ یعنی ہتھیار وں کی سرے سے عدم فراہمی یا پھر پولیس اہلکاروں کو قابل اعتماد اسلحہ کی عدم فراہمی ہے سی ٹی ڈی ٹی اور پولیس کو اسلحہ کی فراہمی اور انسداد دہشت گردی کے لئے جو خطیر وسائل وفاق کی طرف سے اب تک دیئے گئے اس کے استعمال اور بروئے کار لانے کے پورے عمل کا ایک مکمل آڈٹ ہونا چاہئے تاکہ حکومتوں اور محکمے میں سے جس پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہو وہ سامنے آئے یا پھر وہ وسائل کا فی نہ تھے اس کا بھی علم ہو محکمہ جاتی معاملات سے ہٹ کر حکومتی اور سیاسی طور پر دیکھا جائے تو وزیر اعلیٰ اور گورنر خیبر پختونخوا کی نظرمیں محولہ حالات اور صورتحال کی کوئی حساسیت نہیں وزیر اعلیٰ افغانستان سے معاملت کرنے سیاسی معاملات سدھارنے میں لگے رہے اور گورنر خیبر پختونخوا بھی اس موقع کو تنقید کے لئے استعمال کرنے سے باز نہیں آئے ۔کیا اس طرح سے صوبے کے معاملات میں حکومتی و آئینی کردار کی فریضہ کی ادائیگی ہو سکتی ہے شاید نہیں کسی صوبے میں عوام اور یہاں تک کہ پولیس اہلکاروں کا ایک خاص اور حساس معاملے پر تحفظات کا اظہار اور بے چینی کی کیفیت کا ظاہر کرنا تو معمولی امر ہے اور نہ ہی اس کا اس طرح سے حل نکالا جا سکتا ہے کہ اذہان و قلوب سے غلط فہمی دور ہو لیکن کم از کم پولیس اہلکاروں کی جانب سے خود فورس اور فرائض منصبی کے دوران پیش آنے والے حالات اور بے سرو سامانی کی جن شکایات کا اظہار کیا گیا ہے اس پر وزیر اعلیٰ اور آئی جی کو سنجیدگی سے غور کرکے حساس علاقوں میں تعینات پولیس اہلکاروں کو دہشت گردوں کے مقابلے کے لئے ضروری سامان اور افرادی قوت تو مہیا کرنے کی ذمہ داری تو نبھانی چاہئے اگرچہ فی الوقت معاملہ حل نہیں موخر ہوا ہے اور تحفظات دور کرنے کی پولیس قیادت نے یقین دہانی کرائی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اس مسئلے کے حل ہونے کے حوالے سے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے اور نہ ہی دعوے کے مطابق ابتدائی تحفظات دور کئے جانے سے قابل اطمینان سطح کا حصول ہوسکے گابلکہ اس کے لئے حالات کو سازگار بنانے اور برقرار رکھنے کی ضرورت کا امتحان باقی ہے اور اصل امتحان بھی یہی درپیش ہے ۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments