کشمیر انتخابات میں معدوم’ ‘حریت فیکٹر”

کشمیر اسمبلی کے انتخابات کی گرماگرمی میں عوامی سطح پر پاکستان اور الیکشن بائیکاٹ یعنی آزادی پسند فیکٹر معدوم بنا دیا گیا ہے شاید اسی لئے یہ عنصر منظر پرکہیں دکھائی نہیں دے رہا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے پانچ اگست کے بعد کشمیر کو جذبات کے ایک بحرِبیکراں سے خالی کر دیا ہے ۔کشمیر کی سب سے بڑی زمینی حقیقت یعنی آزادی اور حق خودا رادیت کا خیمہ اکھاڑ پھینکا گیا ہے ۔حد تو یہ کہ اس کی باقیات کابھی” کریا کرم” کر دیا گیا ہے ۔اس خیمے کے مکینوں کو ہزاروں کی تعداد میں اُٹھا کر جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے ۔اس کے ہمدرد عناصر کو دبا کراور خوف زدہ کر خاموش کر دیا گیاہے ۔اسرائیل طرز کی نگرانی اورچوکسی کا نظام اور وہی سافٹ وئیر کشمیر میں استعمال میں لاکر ماحول کو خوفناک اور پراسرار بنا دیا گیا ہے ۔ہر شخص یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ وہ ریاست کی نظر میں ہے اور کہیں نا کہیں سے اس پر نظر رکھی جا رہی ہے ۔آزادی پسند کیمپ کی واحد نشانی میرواعظ عمر فاروق جیل میں نہ ہوتے ہوئے بھی قیدی کی سی زندگی گزار رہے ہیں ۔ان کے ساتھ سید علی گیلانی والا کھیل کھیلا جا رہا ہے جنہیں برسوں گھر میں نظر بند رکھ کر عوامی رابطے سے محروم رکھا گیا ۔میرواعظ عمر فاروق آزادی پسند خیمے کے عام رکن نہیں بلکہ اس اتحاد کے سربراہ بھی تھے مگر وہ قطعی غیر موثر بنا دئیے گئے ہیں ۔انہیں سری نگر کی جامع مسجد میں خطبہ ٔ جمعہ دینے کی اجازت بھی نہیں ملتی ۔کشمیر اسمبلی کے انتخابات سے پہلے ایک بار پھر وہ نظر بندی کی سی کیفیت کا شکار ہیں ۔ان حالات میں کون الیکشن کے بائیکاٹ کی کال دے گا اور کون اس پر عمل کرے گا؟ ۔کشمیر کے عوام اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کاراستہ روک کر اپنے جذبات کا اظہارکرنا چاہتے ہیں مگر المیہ یہ ہے مسلمان ووٹ کئی بڑی سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہوجانے سے یہ عمل خاصامشکل ہورہا ہے ۔نیشنل کانفرنس اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی ایک دوسرے کے مدمقابل آکر مسلم ووٹ کو تو تقسیم کرہی رہی ہیں مگر کانگریس بھی ہند و بیلٹ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ کرنے سے زیادہ وادیٔ کشمیر کے مسلمان ووٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور اس طرح کانگریس بھی مسلمان ووٹ کو تقسیم کرنے کے عمل میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے ۔سیاسی مبصرین تسلیم کرتے ہیں اگر کانگریس ہند وبیلٹ پر فوکس کرے تو بی جے پی کی کامیابی کو محدودکیا جا سکتا ہے ۔آزادی پسند کیمپ سے خالی منظر میں پاکستان فیکٹر بھی عوامی اور انتخابی میدان میں بظاہر دکھائی نہیں دیتا مگر اس کے باوجود کشمیر کی سیاسی جماعتیں حتیٰ کہ خود بھارتی حکومت پاکستان کو کسی نہ کسی طور پر زیر بحث لارہی ہے۔وادیٔ کشمیر کی دوبڑی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی نے اپنے منشورمیں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ بات چیت کا نکتہ شامل کیا ہے اور یہ جماعتیں اس نکتے پر بات بھی کر رہی ہیں ۔یہ جماعتیں کشمیریوں کے دلوں میں دبی ہوئی جذبات کی چنگاریوں کوپوری طرح سمجھ کر پاکستان کو کسی نہ کسی انداز سے زیر بحث لارہی ہیں ۔دونوں جماعتوں کے منشور کا یہی نکتہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی بار بار اس موضوع پر اپنا موقف بیان کرنے پر مجبور کر رہا ہے ۔جس کا ثبوت بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا جموں کے ایک انتخابی جلسے میںراجناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کریں میں ان سے کہتا ہوں کہ اس کے لئے پاکستان کو دہشت گردی کی مدد روکنا ہو گی ۔ راجناتھ سنگھ نے اسی موقع پر مسلمانوں کے حالات پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا کہ جموں وکشمیر میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے پچاسی فیصد مسلمان ہیں گزشتہ کئی دہائیوں میں دہشت گردی کے واقعات میں چالیس ہزار جانیں چلی گئیں ۔راجناتھ سنگھ نے آزادکشمیر کے عوام کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ ہندوستان میںشامل ہوں ہم آپ کو اپنا سمجھتے ہیں جبکہ پاکستان آپ کے ساتھ پرائیوں جیسا سلوک کررہا ہے ۔راجناتھ سنگھ کے اس لب ولہجہ میں ایک غیر محسوس سی ملائمت اورنرمی جھلک رہی ہے جو کشمیر کے زمینی حالات کے ساتھ اپنے موقف کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہے ۔وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو یکسر مسترد نہیں کررہے اور پڑوسی کی اہمیت کو سمجھنے کا اشارہ بھی دے رہے ہیں ۔یہ ”اگر مگر”کا انداز انتخابی ضرورت ہے اور اس مقام تک کشمیری عوام کے جذبات نے ہی بی جے پی کو وقتی طور پر ہی سہی مگر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔بھارت نے کشمیر کے سیاسی منظر سے جس پاکستان کو نکال باہر کیا تھا مگر اب وہ خود ہی کشمیر کی زمین پر کھڑے ہوکر اسی پاکستان کو زیرِ بحث لارہے ہیں تو مطلب یہ کہ پاکستان اور آزادی پسند کو اپنے طور پر غیر متعلق بنانے کے باوجود غیر متعلق نہیں بنایا جا سکا اور یہ خود بی جے پی قیادت اپنے طرز عمل سے ثابت کر رہی ہے ۔راجناتھ سنگھ نے ایک اور نکتہ یہ بھی اُٹھایا کہ جب تک بی جے پی ہے کوئی پانچ اگست کے فیصلے کو واپس نہیں لے سکتا ۔کشمیر کی بڑی جماعتوں نے اپنے منشور میں آرٹیکل 370کی بحالی کا نکتہ بھی شامل کیا ہے ۔گویاکہ بی جے پی کو خدشہ ہے کہ ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد آرٹیکل 370کی بحالی کی مہم زورپکڑ سکتی ہے ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست کا اثر بھارت کی دوسری ریاستوں پر بھی پڑ سکتا ہے اوریوں کشمیر کے انتخابات نریندرمودی کی حکومت کو کمزورکرنے کا باعث بن سکتے ہیں ۔ہندو بیلٹ کے انتخابی سروے بتا رہے ہیں کہ بی جے پی کا ووٹ بینک کم ہوگیا ہے اور کانگریس بیس سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی سے آگے نکل سکتی ہے ۔دس سال قبل کے انتخابات میں جب بی جے پی پورے بھارت میں لہر کی صورت آگے بڑھ رہی تھی جموں وکشمیر کے ہندو بیلٹ سے کانگریس ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکی تھی اور بی جے پی نے سوفیصد سیٹیں حاصل کرلی تھیں ۔اب دس سال میں پلوں تلے بہت پانی بہہ گیا ہے اور جموں کے ہندو بیلٹ نے بھی پانچ اگست کے بعد دودھ اور شہد کی نہروں میں غوطے لگا لئے ہیں اس لئے ان پر بھی مودی حکومت کے وعدوں اور دعوئوں کی حقیقت آشکار ہو چکی ہے اس لئے کانگریس کو ان علاقوں میں سپیس حاصل ہونے لگی ہے ۔غیر ریاستی افراد کو کشمیرپر مسلط کرنے کی پہلی زد جموں پر ہی پڑ نے لگی ہے اور جموں ہی سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کا اصل وارث ہے کیونکہ جموں کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ نے پنجاب اور دوسرے علاقوں سے آبادی کا دبائو کشمیر کی طر ف روکنے کے لئے یہ قانون نافذ کیا تھا ۔اب بھی بیرون کشمیر سے آنے والوں کا پہلا پڑائو جموں ہی بنتا ہے اور یہ احساس جموں کے ہندو بیلٹ بھی پیدا ہونا شروع ہوگیا ۔اس طرح کشمیر اسمبلی کے انتخابات جموں وکشمیر کی بدلی ہوئی سیاسی حرکیات پر مزید کیا اثر ڈالتے ہیں یہ ان انتخابات کے نتائج سے ہی اندازہ ہوگا۔

مزید پڑھیں:  فکری عدم برداشت اور پاکستان