چار اور جیسے حالات ان دنوں ہیں ساڑھے 6 دہائیوں کے سفر میں کبھی دیکھے نہ بھگتے۔ یہ درست ہے کہ ہر دور میں غربت بھی ہوتی ہے اور مسائل بھی، بیروزگاری اور ا فراتفری بھی لیکن اب یہ جو کچھ ہے اس پر ایک پنجابی گانے کا نصف بول صادق آتا ہے ”توبہ توبہ کرادتی توں ظالماں”۔ اسی طرح سماج میں تقسیم کی خلیج نہ صرف خطرناک حد تک گہری ہے بلکہ اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ہمدرد ہوں یا فرقہ وارانہ بنایدوں پر قائم مذہبی جماعتوں کے، عام زندگی میں تو یہ جیسے ہیں سو ہیں لیکن سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کیلئے جو زبان استعمال کرتے ہیں بس اللہ توبہ کا ورد ہی کرنا پڑتا ہے۔ بدزبانی کے اس لشکر میں پچھلے کچھ عرصہ سے بی ایل اے وغیرہ کے ہمدرد بھی شامل ہوچکے ہیں۔ یہ بھی زمانے کی ہر غلیظ گالی اپنے مخالف پر اچھالتے ہیں صرف یہی نہیں شرافت و اخلاقیات کا نقاب چڑھائے کچھ بوزنے بھی جی کے پھپھولے پھوڑتے دیکھائی دیتے ہیں۔ میں اکثر اپنے دوستوں کے سامنے یہ سوال رکھتا ہوں کہ اخلاق باختگی کی اس معراج پر مختلف الخیال اہل پاکستان کیسے پہنچے؟زیادہ تر دوستوں کا خیال ہے کہ ناانصافی، عدم مساوات، وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اور طبقاتی بالادستی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ کچھ دوست اسے جمہوریت سے کْلی فرار کا نتیجہ قرار دیتے ہیں بعض کا خیال ہے کہ چار فوجی ادوار میں جس طرح مصنوعی قیادتوں کی پنیری لگائی گئی یہ اس کا نتیجہ ہے البتہ میرے دو تین دوستوں اور فقیر راحموں کا کہنا ہے ”جو چیز فروخت ہوتی ہے اس کے گاہک ہوتے ہیں”۔ اس معاشرے میں سب سے زیادہ بدزبانی کا کاروبار ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں ایک مولوی صاحب جو اپنے تقاریر میں گالیاں دینے کی وجہ سے راتوں رات شہرت کے دسویں آسمان پر جگمگانے لگے تھے انہوں نے تو گالم گلوچ کی شرعی حیثیت ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی۔ مذہبی جماعتوں کے کارکن بداخلاق تو پہلے بھی ہوا کرتے تھے مگر ان مرحوم مولوی صاحب کے عقیدت مندوں نے تو بدزبانی کے نئے رجحانات کو نہ صرف متعارف کروایا بلکہ ان رجحانات کی ”مسلمانی” کرکے مقدس بھی بنادیا۔
ذاتی طورپر میں دیگر وجوہات (جو اوپر بیان کی گئیں)کے ساتھ ملکیت کْلی کی شوقین ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ اچھا یہ محض درشنی فیشنی الزام ہرگز نہیں اس میں صداقت ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایجنسیوں کی چھتر چھاپہ میں کی بورڈز جنگجوئوں کا لشکر تیار کیا گیا تھا اسی دور میں ملک کے چند ”اعلیٰ” تعلیمی اداروں سے ”ہونہار” طلباء کا انتخاب کرکے ان کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ”تربیت” کی گئی۔یہ سال 2003ء سے 2006ء تک کے عرصے کی بات ہے تب پرویز مشرف کی سربراہی میں ملک میں الیکٹرانک میڈیا کیلئے راستہ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ دنیا جس طرح تبدیل ہورہی ہے اس میں ہمیں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ اپنا حصہ کیسے ڈالنا ہے؟ ایسے ہی ڈالا گیا جس کی بالائی سطور میں نشاندہی کی گئی ہے۔ کی بورڈ واریئرز کا لشکر تشکیل دینا اور ا لیکٹرانک میڈیا کیلئے دروازے کھولنے سے قبل ایسی پنیری تیار کرلینا جو سیاسی عمل، جمہوریت اور سیاستدانوں کو ہر دستیاب گالی دے، آپ اگر الیکٹرانک میڈیا کی آمد سے آج تک کے پرائم ٹائم میں نشر کئے گئے سیاسی ملاکھڑوں کا تجزیہ کریں تو میری بات آسانی سے سمجھ لیں گے ان پروگراموں کے ذریعے ناظرین کی منفی ذہن سازی کی گئی یہ پروگرام زیادہ تر اصیل مرغوں اور ”اصیل ” جانوروں کی لڑائی کا منظر پیش کرتے ہیں۔ کھمبیوں کی طرح آگ آگے جماندرو تجزیہ کاروں نے خود کو ہر فن مولا ثابت کرنے میں ہر ”فن” کو لیرولیر کیا۔ ہم ایسے لوگ جو ان برسوں میں کہتے تھے کہ کسی فہمی رہنمائی اور تربیت کے بغیر الیکٹرانک میڈیا کیلئے دروازہ کھولنے سے نقصان زیادہ ہوگاانہیں اپنے ہی ساتھیوں کی کڑوی کسیلی باتیں سننا پڑیں۔ میری آج بھی یہی رائے کہ کہ جب بھی کوئی کام بیرونی دبائو اور مقامی (مقامی سے مراد اسٹیبلشمنٹ ہے) ایجنڈے کے مطابق کیا جائیگا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ بہرحال ہم سبھی اپنے چار اور پھیلے پھلتے سماج کیساتھ آج جس مقام پر کھڑے ہیں یہ کوئی قابل فخر مقام نہیں۔ ہر سیاسی و مذہبی جماعت کے نزدیک اس کا ہم خیال سچا صحافی دانشور اور ادیب ہے اس لئے مخالف آراء کا اظہار کرنے والوں کی ماں بہن تک پر ”نقدونظر” عین ثواب ہے۔ عدم برداشت ہمیں بٹورے کے ورثے میں ملی تھی اسے مزید نکھارا قرارداد مقاصد نے پھر چل سو چل ہر حکومت نے اپنا حصہ ڈالا لیکن آج ہمارے چار اور جس عدم برداشت کا دوردورہ ہے یہ اپنی مثال آپ ہے۔ ویسے اگر ہم صرف دستیاب مسلم تاریخ کے اوراق الٹ کر ہی دیکھ لیں تو یہ تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارا نہیں کہ یہ عدم برداشت، مخالف فریق سے نفرت اور دوسرے وہ معاملات جو شرف انسانی سے متصادم ہیں اس تاریخ کے ورق ورق پر موجود ہوکر یہ گواہی دے رہے ہیں کہ ہم تو جو ہیں سو ہیں کم ہمارے پرکھے بھی نہیں تھے (یہاں پرکھے فقط ان کے جو اس امر کے مدعی ہیں کہ وہ متحدہ ہندوستان میں سات آٹھ سو یا ہزار سال قبل بلاد عرب بے آکر آباد ہوئے ہیں)عرض یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ جس عدم برداشت، گالم گلوچ اور بیسواگیری پر ماضی میں لوگ ہلکی پھلکی شرمندگی محسوس کرتے تھے آج وہ فیشن بھی ہے اور ضرورت بھی۔ یہ سطور لکھنے سے چند لمحے قبل سوشل میڈیا کی سائٹ ایکس (ٹیوٹر) پر دو ٹیوٹ وائرل ہوئیں، پہلی تحریک انصاف کے ایک حامی نے لگائی اس نے تحریک انصاف کی قیادت و سیاست یوٹرنز اور دیگر معاملات پر تنقید کرنیوالے صحافیوں اور اینکروں کو اسٹیبلشمنٹ کا ٹائوٹ اور بھونپو قرار دیا۔ جواباً (ن) لیگ کے ایک حامی نے دو تین اینکروں اور نصف درجن ان یوٹیوبرز کی فہرست ٹیوٹ کی جو تحریک انصاف کی کھلی حمایت کرتے ہیں اور سوال کیا کہ یہ لوگ کیا ہیں۔ دونوں ٹیوٹس کے نیچے آراء لکھنے والوں کے ”حْسن کلام” الفاظ کے مادر پدر آزاد انتخاب نے وہ دھول اڑارکھی ہے کہ سانس لینا دوبھر ہوگیا ہے۔ باردیگر عرض ہے سیاسی و غیرسیاسی شخصیات کیلئے پسندوناسند کے بازاری اظہار نے جو رنگ جمارکھا ہے اس پر بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ الحمدللہ مجھے بھی اکثر ”بازاری اظہار” اسے سادہ لفظوں میں بیسوا دانی کہہ لیجئے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے دوست یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم گالی کھاکر دست دعا بلند کریں کیوں؟ یہ نہیں بتاتے، مان لیجئے کہ یہاں نہ تو کوئی سید اخلاق حسین ہے اور نہ ہی پیر چْپ شاہ۔ سبھی آدمی ہیں گوشت پوست کے ایک جیسے ماحول میں بسنے اترانے والے جن کی ننانوے فیصد غذائیں بھی ایک جیسی ہیں۔
پھر ماحول اور غذائوں کے اثر سے کیسے محفوظ رہا جائے۔ عدم برداشت اور دوسری خرابیوں سے پیدا شدہ گھٹن ہی کیا کم تھی کہ اب اس ملک میں قانون کی آنکھ کے سامنے قانون سے کھلواڑ ہوتا ہے اور قانون دْم دبائے رہتا ہے۔ اگر کوئی سوال کرے کہ اس لاقانونیت کا کیا مطلب ہے تو جواباً گستاخ گستاخ کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ صاف سیدھی بات یہ ہے کہ کم از کم مجھے اصلاح احوال کی کوئی صورت دیکھائی نہیں دے رہی۔ انسانی تاریخ کے مطالعے کی روشنی میں مجھے ایسا لگتاہے کہ تنزلی و بربادی کا یہ سفر ابھی دو اڑھائی صدیوں تک مزید چلے گا وقت میں اضافہ بھی ہوسکتاہے کیونکہ ہمارے ہاں کوئی بھی شرف انسانی پر چاند ماری سے خود کو باز نہیں رکھ پاتا۔ آخری بات یہ ہے کہ ہاتھ اور دامن بچاکر زندگی کے باقی دن پورے کیجئے، وسائل ہیں تو یہاں سے نکل لیجئے تاکہ اپنے بچوں کی صاف ستھرے ماحول میں تربیت کرسکیں۔ کیونکہ یہاں آپ اور ہم جو مرضی کرلیں جس قسم کا ماحول بن چکا یہاں صرف غازیوں، دولے شاہی چوہوں اور کلٹس کیلئے جگہ ہے انسانوں کیلئے بالکل نہیں۔
Load/Hide Comments