دنیا کوجب سے یہ احساس ہوا ہے کہ پلاسٹک شاپنگ بیگز ماحولیات کے لئے سنگین خطرات کا باعث ہیں اور ان کو ضائع کرنے کے لئے ناکام کوششوں سے اگر ان کا اتلاف ناممکن ہے تو دوسری جانب ان کے جلانے سے جو خطرناک دھواں اور گیسز کا اخراج ہوتا ہے وہ اوزون لیئر کو شدیدطور پر متاثر کرتے ہوئے اس میں شگاف بڑھانے اور عالمی سطح پر درجہ حرارت بڑھانے کا باعث ہیں جن کی وجہ سے گلیشیرز تیزی سے پگھل کر ماحولیاتی تباہی کا باعث بن رہے ہیں تو اہل مغرب نے تو پلاسٹک مصنوعات کی تیاری اور استعمال سے جان چھڑالی ہے مگر ہم جیسے ترقی پذیر ، چھوٹے ممالک میں شعور کی کمی کی وجہ سے پلاسٹک مصنوعات خصوصاً شاپنگ بیگز سے جان چھڑانے کی کوئی بھی کوشش کامیابی سے ہمکنار ہونا تو ایک طرف گزشتہ برسوں کے دوران صوبائی سطح پر ان شاپنگ بیگز کی تیاری تک کو روکا نہیں جا سکا ، حالانکہ ان کی تیاری اور خریدو فروخت پر کئی بار پابندی لگی ، مگر جلب زر کی لالچ میں اندھے ہوئے صنعتکاروں ، تاجروں ، دکانداروں یہاں تک کہ خوردہ فروشوں نے بھی ان احکامات کو ہر قدم پر جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے انسانوں کی زندگیوں سے کھیلے جانے والے اس کھیل کو بند کرنا قبول نہیں کیا ، ہمارے ہاں تو ری سائیکل کئے جانے اور کینسر کا باعث بننے والے سیاہ رنگ کے شاپرز میں جو عام شاپرز کے مقابلے میں کہیں سستے داموں مل جاتے ہیں سبزیاں ، پھل فروٹ ڈال کر فروخت کرنا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے جبکہ ان میں خوراک کی اشیاء کینسر میں عوام کو مبتلا کرنے کی وارننگ ہمیشہ سے ماہرین صحت دیتے رہتے ہیں ، اب ایک بار پھر ان شاپنگ بیگز کے استعمال کو روکنے کے لئے تین ماہ کی مہلت دی گئی ہے مگر یہ سلسلہ تب رک سکتا ہے جب مزید بیگز تیار کرنے پر سختی سے عمل درآمد کرتے ہوئے کارخانوں کو مکمل طور پر بند کیا جائے اور موجود سٹاک کو تین ماہ میں ختم کرنے پر توجہ دی جائے ، وگرنہ کوئی نتیجہ برآمد ہونے کی توقع نہ کی جائے ۔