بیماری کو جڑ سے اکھاڑیئے

کابینہ ڈویژن نے توشہ خانہ میں موصول تحائف کی قیمتوں کا تخمینہ لگانے کا فیصلہ کرتے ہوئے نجی تخمینہ کاروں سے 30ستمبر تک بولیاں طلب کر لی ہے ، اور توشہ خانہ میں موصول مختلف کیٹیگریز کے تحائف کی قیمتوں کا تخمینہ لگایا جائے گا، ان تحائف میں زیورات ، گھڑیاں ،کارپٹس اور دیگرتحائف کی قدر معلوم کی جائے گی جبکہ کابینہ ڈویژن کامیاب تخمینہ کاروں کے ساتھ معاہدہ کرے گا جبکہ ان تخمینوں کے لئے تخمینہ کاروں کو معاوضہ ادا کیا جائے گا ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ماضی میں سامنے آنے والی خبروں کے مطابق توشہ خانہ کو ان افراد کی جانب سے جن کو قانونی طور پرتوشہ خانہ سے تحائف خریدنے کا قانونی حق حاصل ہے مبینہ طور پر جس طرح ”لوٹا” گیا وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ، ہم کسی خاص شخصیت کی جانب اشارہ کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اس ”حمام” میں بے لباسی کا الزام کئی لوگوں پر لگایا جا سکتا ہے ، اور ایسے کی نشاندہی بھی کی جاتی رہی ہے جنہوں نے اصل تحائف غائب کرکے ان کے نقلی نمونے توشہ خانہ میں جمع کرائے ، غرض لالچ اور حرص نے متعلقہ مقتدر حلقوں کو جس طرح اس قومی امانت کے ساتھ بددیانتی کرنے پر مجبور کیا وہ ایک عبرت ناک داستان ہے جبکہ بعض لوگوں نے من مانے طریقے سے تخمینہ لگوانے پر بھی متعلقہ تخمینہ کاروں کو آمادہ اور مجبور کرکے اس کمترین قیمت کے بھی مقررہ 20فیصد اور اب شاید 30فیصد تک ادائیگی سے یہ نایاب اور قیمتی تحائف ”ہڑپ” کرنے کی راہ ہموار کی اور پھر عالمی مارکیٹ میں انتہائی مہنگے داموںفروخت کرکے تجوریاں بھریں حالانکہ اصولی طور پر یہ تحائف ذاتی استعمال میں تولائی جا سکتی ہیں مگر فروخت نہیں کی جا سکتیں ، مگر ہمارے ہاں ہر قانون کی دھجیاں بکھیرنے کی روایت بھی بہت پرانی ہے بہرحال اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ توشہ خانے کے تحائف کو ہمیشہ ہمیشہ محفوظ رکھنے کی پالیسی اختیار کرکے ان تحائف کو کسی بھی شخص کو حاصل کرنے پر پابندی عاید کی جائے تاکہ کسی کی بھی حریص نظریں ان پر نہ پڑنے پائیں۔

مزید پڑھیں:  دھمکیوں کی سیاست کہاں تک؟