ہزار بار بشویم دہن بہ مشک وگلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است
گزشتہ کالم میں فخر الانبیاء ، سرور کونین ، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ہم نے غیر مسلم شعراء کی جانب سے حضور پر نور کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان غیر مسلم شعراء کے اشعار کا تذکرہ کیا تھا اور کالم کی سرخی جس مصرعہ پر مبنی تھی یعنی”صرف مسلم کا محمدۖ پہ اجارہ تو نہیں” یہ مصرعہ ایک سکھ شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی کا تھا اور مکمل اشعار یوں ہیں
ہم کسی دین سے ہوں قائل کردار تو ہیں
ہم ثناء خوان شہ حیدر کرار تو ہیں
نام لیوا ہیں ، محمدۖ کے پرستار تو ہیں
یعنی مجبورپئے احمدۖ مختار تو ہیں
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدۖ پہ اجارہ تو نہیں
بات درحقیقت اختتام تک نہیں پہنچی تھی اور کبھی پہنچ بھی نہیں سکتی کیونکہ جب تک یہ دنیا قائم ہے کیا مسلمان اور کیا غیر مسلم ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدحت میں رطب اللسان ہوتے رہیں گے ، اس ضمن میں مولانا الطاف حسین حالی کی مشہور زمانہ ”مسدس حالی” سے متاثر ہو کر ایک اور ممتاز ہندو شاعر ستیہ پال آنندنے بھی ایک نعتیہ نظم بہت ہی خوبصورت انداز میں لکھی ، اس کا کچھ حصہ ملاحظہ کیجئے۔
اے خاصہ خاصان رسل ہادی برحق
حالی نے روا رکھا تھا جو طرز تخاطب
مجھ جیسے سبک سر کو تو اچھا نہیں لگتا
اے سیدالابرارۖ!
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
اس ”تم”پہ ”تمہاری” پہ تری ”تو” پہ تو مالک
ہے سخت تعجب کہ ادنیٰ سا یہ انسان
کیا آپ سے اس درجہ تکلف سے بری ہے
اے سرور کونینۖ
میں خاک کف پا بھی نہیں آپۖ کے آقا
میں کیا ہوں فقط اک کف خاشاک وخس و خاک
بے وقعت و ناکارہ و بے دانش و نافہم
اور آپ حضور اکمل و سرمد مرے مالک
تحقیق کی جائے تو اس قسم کے ہندو ،سکھ اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے شعراء کی ایک طویل فہرست اور ان کا نعتیہ ، حمدیہ اور شہیدان کربلا کے حضور خراج عقیدت پرمبنی کلام مرتب کیا جاسکتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ان غیر مسلم شعراء کے کلام کی کئی جلدیں بن جائیں گی جب کہ ایک پاکستانی عیسائی شاعر نذیر قیصر نے بھی کیا خوب کہا ہے کہ
میں اور منزل دور کی
چھتری کھلی کھجور کی
جب ایک ہندو شاعر راجندر کمار شاید نے ایک صدی سے بھی پہلے داستان کربلا کو یوں رقم کیا تھا
اس قدر روا میں سن کر داستان کربلا
میں تو ہندو ہی رہا ، آنکھیں حسینی ہو گئیں
اب آتے ہیں مسلمان شعراء کرام کی طرف اور ظاہر ہے بحیثیت مسلمان حمد و نعت ، منقبت ، مرثیہ ، سلام وغیرہ تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور برصغیر میں جب فارسی اور اس کے بعد اردو زبان میں ادباء و شعراء نے ان اصناف میں شاعری کی ہے ، تب سے حمدو نعت کی روایت موجود ہے ان سب کا احاطہ تو محققین پوری طرح آج تک نہیں کر سکے تو اتنے مختصر کالم میں کیسے کیا جا سکتا ہے ، بہرحال خیبر پختونخوا کے چیدہ چیدہ شعرائے کرام کے نمائندہ ا شعار پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنے تک ہی خود کو محدود رکھنے کی کوشش کرتا ہوں پشاور کے ایک سینئر شاعر اور استاد زباں و ادب ڈاکٹر نذیر تبسم کے خوبصورت نعتیہ اشعار ہیں
یہ میرے لہجے میں خوشبو کے جو قرینے ہیں
سو اس لئے ہیں کہ دل میں خیال آپۖ کا ہے
عطا ہوا جو شرف مجھ کو نعت گوئی کا
یہ معجزہ ، یہ ہنر ، یہ کمال آپۖ کا ہے
پروفیسر ناصر علی سید کے دو شعر
ہر ایک لمحہ جہاں پر ہے رحمتوں کا نزول
وہ در ہمیشہ مہکتا رہے ورائے بہار
اذیتیں ہوں وہ طائف کی یا کہ بطحا کی
مرے حضور نے سب کچھ سہا برائے بہار
پروفیسر حسام حُر نے کیا خوب کہا ہے کہ
مجھے ہے ناز کہ دن رات نعت لکھتا ہوں
یہ مرتبہ کوئی رتبہ شناس رکھ نہ سکا
پروفیسر خالد سہیل ملک نے کہا ہے کہ
بکھرنے سے بچاتا ہے اگر میں ٹوٹ جاتا ہوں
محمدۖ نام ہے ایسا کہ مرہم دل پہ رکھتا ہے
ڈاکٹر اسحق وردگ کا نعتیہ شعر ہے
مدینہ اک مرے باہر دکھائی دیتا ہے
تو دوسرا مرے اندر دکھائی دیتا ہے
اور شوق جعفری یوں رقم طراز ہیں
آپۖ کے ذکر سے سرشار ہوا ہر عالم
شوق پھر جھوم اٹھا اور بھی مخمور ہوا
جبکہ بشریٰ فرخ نے اردو کے علاوہ ہندکو میں بھی نعتیہ مجموعے ادب کے حوالے کئے ہیں ان کا ایک ہندکو نمائندہ شعر ہے
درآقاۖ نے بخشاوے منوں اوج ثریا
بڑی ری معتبر میری گدائی ہو گئی اے
Load/Hide Comments