یوں توعام مسافر بسوں میں خواتین مسافروں کے ساتھ نہ صرف مردوں کی جانب سے دست درازی اور ہراسگی کے مبینہ حرکات عام سی بات ہے بلکہ خود خواتین کی جانب سے بھی خواتین کو تنگ کرکے ان حرکتوں کی آڑ میں ان سے زیور اور پرس چوری کرنے کے بارے میں خبریں بہت عام ہیں جبکہ ان ٹھگ عورتوں کے ساتھ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کے ڈرائیورز او ر کنڈیکٹرز کی ملی بھگت کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں ،اور اب یہ سلسلہ بی آر ٹی بسوں میں بھی پھیلتا جارہا ہے جہاں مرد مسافر خواتین کے لئے مخصوص حصے میں داخل ہو کر نہ صرف قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہیں بلکہ خواتین کی جانب سے ان مرد مسافروں کی جانب سے دست درازی کی شکایات بھی سامنے آرہی ہیں ، ایک زمانہ تھا جب پشاور اور یونیورسٹی کے درمیان چلنے والی جی ٹی ا یس(مرحوم) کی اومنی بس سروس میں خواتین کے حصے کو جالی لگا کر علیحدہ کیا گیا تھا اور مرد حضرات کو اس حصے میں داخل ہونے کی نہ تو اجازت تھی نہ ہی ڈرائیور اور کنڈیکٹر انہیں ایسا کرنے دیتے تھے ضرورت اس بات کی ہے کہ بی آر ٹی بسوں میں بھی اس قسم کے قانون پرسختی سے عمل کیا جائے اور مرد حضرات کی چیرہ دستیوں سے خواتین کو ہر طرح سے محفوظ بنایا جائے بی آر ٹی کے ہرسٹاپ پر جو سیکورٹی تعینات ہوتی ہے اور مین کاریڈور سے باہر روٹ پر بس کے اندر بھی سیکورٹی کا عملہ ہوتا ہے ان کو اس ضمن میں سختی سے چوکس رہنے اور اس کی روک تھام کی ہدایت کی جانی چاہئے ہر سٹاپ پر بھی ایسے لوگ تعینات کئے جائیں جو بسوں کے اندر کسی بھی غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت کے مرتکب افراد کو ڈرائیوروں اور متعلقہ ”سیکورٹی”افراد کی شکایت پر گرفتار کرکے نزدیکی تھانوں میں پہنچا کر کیفر کردار تک پہنچانے میں تعاون کریں کیونکہ خواتین کے تحفظ کی ذمہ داری بی آر ٹی انتظامیہ پرعاید ہوتی ہے جس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments